Xi Jinping sees breaking up India to be of great benefit

ایک امریکی کالم نگا ر،مصنف اور وکیل گورڈن جی چانگ نے دی ویک میگزین کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے امریکی چینی ٹیکنالوجی جنگ کس رخ پر جارہی ہے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکی چینی ٹیکنیکل جنگ کے فاتح کا ہمارے دور پر غلبہ رہے گا۔ایک دہائی پہلے چینکو ٹیکنیکی حریف نہیں گردانا جاتا تھا ۔ اب کچھ اسے قائد کہتے ہیں۔

کئی اہم شعبوں میں امریکہ پہلے ہی بہت پیچھے ہے۔دیگر امور پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے باعث امریکہ نے چین کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے خو د کو کبھی متحرک نہیں کیا۔ لیکن اب ٹرمپ انتظامیہ اس پہلو پر غورو فکرکر رہی ہے کہ کس طرح اعلیٰ تکنالوجی پر اپنا کنٹرول واپس لے۔اب دیکھیے ہووائی ٹیکنالوجیز کے بعد امریکہ اب کیسا متحرک ہے۔ سال کے اوائل میں ہوائی جو 5جی پر چھاتاہوا نظر آرہا تھا ۔اب کمپنی دنیا کی تمام اہم منڈیوں میں واپسی کر رہی ہے۔

اس استفسار پر ہندوستان کی جانب سے چینی جارحیت پر کیا ردعمل ہونا چاہیے جی چانگ نے کہا کہ ہندوستان کو اپنی سرحد پر چین سے زیادہ فوج تعینات کرنی چاہئے۔ بالآخر یہ ایک اقتصادی دباو¿ ہوگا جو چینی فوجوں کو واپس جانے پر مجبور کر دے گا۔چینی اشیاءکا بائیکاٹ، چینی ایپس پر پابندی، ہندوستانی ٹیلی کوم سے ہوائی کمپنی کا سازو سامان ہٹانا، چینی کاروبار کو ملک بدر کرنا اور اسی قسم کے دیگر اقدامات سے چین پر دباؤ بڑھ جائے گا کہ بہتری اسی میں ہے اپنی سرحدمیں واپس آجایا جائے۔ ہندوستان کو چین کو ایسا سبق سکھانا چاہئے کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے۔کوئی فائدے حاصل کرنے سے زیادہ کارگر چین پر اقتصادی وار ہوگا۔ چین سمجھتا ہے کہ وہ اپنی دادا گیری اور غنڈہ گردی سے جو چاہے حاصل کر لیتا ہے۔ اسی لیے شی جن پینگ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان پر قابو پا لیا تو زبردست فائدہ ہوگا۔ ہندوستان اور ہندوستانی عوام شی جن پینگ اور اس کی خطرناک حکومت کے خلاف سخت ترین اقدامات کی امنگوں کے ساتھ اسے سبق سکھانا چاہئے۔

ہندوستان کے پاس واحد متبادل یہی ہے کہ وہ مضبوط رہے۔ وہ اگر آج اپنی مضبوطی کا مظاہرہ نہیں کرے گا تو چین اس کے جوڑ جوڑ الگ کردے گا۔ چین کے تعلق سے ہندوستان کی بھی وہی پوزیشن ہے جو باقی دنیا کی ہے۔ہندوستان نہیں سوچ سکتا کہ وہ دسیوں سال سے چلی آرہی چین کے تئیں گمراہ کن پالیسی کی وجہ سے کوئی خمیازہ بھگتے بغیر بچ سکتا ہے۔ یہ معلوم کیے جانے پر کہ کوویڈ19-وبا سے باقی دنیا کے ساتھ چین کے تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں جی چانگ نے کہا کہ ایک مغرور اور گھمنڈی شی جی پینگ ، جو ہمیشہ سے اس میں یقین رکھتا ہے کہ چین کا پوری دنیا پر غلبہ ہونا چاہئے ،کورونا وائرس وبا کو اپنے حق میں نعمت غیر مترقبہ سمجھتا ہے کہ وہ اس دوران دیگر ممالک کی اس وبا سے لڑنے پر توجہ مرکوز رہنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چینی اثر و رسوخ اور طاقت میں اضافہ کر لے گا۔ چینی جنرلوں کا خیال تھا کہ سرحد پر اونگھ رہی ہندوستانی فوج کو غفلت میں دبوچ لیں گے۔انہوں یہ پوچھے جانے پر کہ کیا چین تنزلی کے شکار امریکہ سے آگے نکل رہا ہے انہوں نے کہا کہ چین جس حد تک کچھ کرسکتا تھاکر گیا۔ اس پر کافی عدم اتفاق ہے کہ چین کیوں اتنی زیادہ جارح سفارت کاری پر اتر آیا ہے۔

کچھ کا خیال ہے کہ چین نے یہ وطیرہ اس لیے اختیار کیا کیونکہ شی جن پینگ سمجھتے ہیں کہ چین بہت طاقتور ہے اور دیگر یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ ایسا اس لیے کرنے پر مجبور ہیں کہ وہ اپنی حکومت کو کمزور سمجھتے ہیں۔اور میں موخر الذکر کا ہم خیال ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ شی جن پینگ نے موقع ہاتھ سے نکلتا بھانپ لیا ہے۔مغرور رہنما جانتا ہے کہ چین کی اقتصادی حالت پتلی ہو رہی ہے ،ماحول ساز گار نہیں رہا، چینی عوام میں بے چینی ہے اور ملک کی آبادیات میں کافی عرصہ سے تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔شی کے لیے ہندوستان سخت باعث تشویش ہے۔ چینی عوام کو دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا قبیل ہونے کا فخر حاصل تھا اور ا شی واقف ہے کہ ہندوستان آبادی کے معاملہ میں اسے بہت پیچھے چھوڑنے والا ہے۔

شی آبادی کی رجحانات دیکھ سکتا ہے اور وہ اس ضمن میں کچھ نہیں کر سکتا ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان بہت جلد اس میدان میں چین کو دھول چٹا دے گا۔شی کے لیے اب آر پار کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے ۔اور ہندوستان کو کمتر اور بے عزت کرنے کا یہ آخری موقع ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ واحد سوپر پاور کے طور پر ابھرنے کے چینی عزائم کا کیا مستقبل ہے جی چانگ نے کہا کہ چین اپنی طاقت کی حدیں چھو چکا ہے اور پیش آنے والے معمولی واقعات اس کو کمزورکرنا شروع کر دیں گے۔ تاہم ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کہ ایسی حالت میں بھی چین خطرناک بلکہ اس سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے جب وہ طاقتور ہونے کے وقت تھا۔شی کے پاس، جو ایک بگڑتی صورت حال کو دیکھ رہے ہیں ،جارحیت پر اتر آنے کا سبب ہے خاص طور پر اس لیے بھی کہ وہ دیکھ چکے ہیں کہ ماضی میں چینی جارحیت کارآمد اور سود مند ثابت ہوئی ہے۔ اگر ہندوستان ثابت قدم رہا اور مضبوطی سے کھڑا رہا تو آخری فتح اسی کی ہوگی۔

(’دی ویک میگزین‘ کی نمرتا بیجی آہوجا کا چینی امریکی مصنف اور چینی امور کے ماہر گورڈن جی چانگ سے خصوصی انٹرویو)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *