بیجنگ : چینی صدر شی جن پینگ نے ذہن میں بدترین منظرنامہ کا تصور کرتے ہوئے منگل کے روز اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ اپنی جنگی تیاریوں میں اضافہ کردے اور مزید کہا کہ ملک کی یکجہتی و اقتدار اعلیٰ کا ڈٹ کر دفاع کرے۔اگرچہ انہوں نے کسی خاص خطرے کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ انہیں کس دشمن سے خطرہ ہے یا وہ اپنی فوج کو کس دشمن کے خلاف تیار رہنے کا حکم دے رہے ہیں۔تاہم چونکہ ان کا یہ حکم ایسے حالات میں دیا گیا ہے جس حقیقی کنٹرول لائن پر (ایل اے سی) پر ہندوستان اور چین کے فوجیوں کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے تو یہی قیاس کیا جارہا ہے کہ شی جن پینگ کا یہ حکم ہندوستان کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔بہت ممکن ہے کہ یہ تائیوان کے خلاف ہو کیونکہ اس سے بھی آج کل چین کی ٹھنی ہوئی ہے اور ہندوستان کی طرح اسے بھی وہ مستقل بڑی خشمگیں نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔سفاری و سیاسی حلقوںمیں جن پینگ کے اس حکم کو امریکہ کے خلاف بھی سمجھا جا رہا ہے۔ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژن ہوا نے شی پینگ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ چونکہ کورونا وائرس وبا پر قابو پانے کی کوششیں اب کامیاب ہو چکی ہیں اس لیے جنگ کی تیاری اور مشق کے لیے راہیں تلاش کرنا ضروری ہو گیا ہے۔شی پینگ نے چین کی قومی پارلیمنٹ نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کے ہفتہ بھر کے لیے بلائے گئے اجلاس کے دوران فرصت کے لمحات میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے شی پینگ نے کہا کہ جنگ کی تیاریوں میں اضافہ ، اصل جنگ کی فوجی تربیت دینا اور فوجی مشنوںکو پورا کرنے کے لیے فوجی صلاحیت میں بہتری لانا ضروری ہو گیاہے۔یہ حکم چینی فوجی بجٹ میں 178بلین ڈالر تک اضافہ کے اعلان کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ گذشتہ سال مختص کیے گئے دفاعی بجٹ کے مقابلہ6.6فیصد زائد ہے۔شی جن پینگ کا یہ حکم ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب لداخ اور سکم سیکٹر نیز نیپال کے ساتھ لیپو لیکھ تراہے میں ہندوستان اور چین کی فوجوں کے درمیان کشیدگی بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔سمجھا جاتا ہے کہ اترا کھنڈ کے پتھور گڑھ کے لیپو لیکھ ، کالا پانی اور لیمپیا دھورا علاقوں پر نیپال کی حالیہ دعویداری میںچین نے رول ادا کیا ہے اور چین کی ایماءپر ہی نیپال نے اس معاملہ کو اس قدر زور شور سے اٹھایا کہ اس نے ہندوستان کی جانب سے اظہار ناراضگی اور یہ کہے جانے کے باوجود کہ وہ اسے ہر گز قبول نہیں کرے گا، نقشہ میں ردو بدل کر کے ان علاقوں کو باقاعدہ نیپال کا حصہ بتاتے ہوئے اس نقشہ کو منظورکرانے کے لیے پارلیمنٹ تک میں پیش کر دیا۔حقیقی کنٹرول لائن پر صورت حال کشیدہ ہے ۔ گلوان وادی، پانگونگ ٹیسو،ڈیمچک اور دولت بیگ اولڈی میں اوہندوستانی و چینی فوجی ایک دوسرے کا سامنا کرنے کے لیے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے تیار کھڑے ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی5مئی کو اس وقت بڑھی جب ہندوستان اور چین کے تقریباً250فوجی ایک دوسرے سے متصادم ہو گئے۔دو روز کے اس ٹکراو¿ میں طرفین کے کم و بیش 100فوجی زخمی ہو گئے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چینیوں کے کچھ ہندوستانی فوجیوں کو چند گھنٹے تک قیدی بھی بنائے رکھا۔ فریقین مقامی کمانڈروں کے درمیان ملاقات کے بعد تصادم بند کرنے پر راضی ہو گئے۔ ایل اے سی کے اپنی طرف کے علاقہ میں ہندوستان کے ذریعہ تعمیرات کی چین مخالفت کر رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ہندوستانی اقدام سرحدی تنازعہ طے پائے جانے تک علاقہ کی ہیئت میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے ۔ چین لداخ کے حصوں کو اپنی ملکیت بتانے پر مصر ہے۔اس نے 1962کی جنگ میں اکسائی چن پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے بعد سے اس نے اس علاقہ پر اپنا تسلط ختم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔2019میں جموں و کشمیر کی نو تشکیل کے بعد جب سے لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ کا درجہ دیا گیا اسی وقت سے چین نے بڑا جارحانہ رویہ اختیار کر لیا ہے۔ہندوستان نے اپنی جنگی نوعیت سے اہم اپنی پوزیشن بیتر بنانے کے ساتھ ساتھ ایل اے سی کے قریب دیہات میں ترقیاتی کام کے طور پر بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر اور سڑک بنانے میں لگا ہے۔چین پہلے ہی ایل اے سی پر اپنے علاقے میں زیک زبردست بنیادی ڈھانچہ تعمیر کر چکا ہے۔فی الحال طرفین کی فوجیں لداخ میں اپنی موجودگی کا ایسا ہی اظہار کر رہی ہیں وہ 2017میں بھوٹان کے ساتھ تراہے پر ڈوکلم کا منظر پیش کر رہا ہے۔ شی جن پینگ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ملاقات کے بعد دونوں ممالک کی قیادت کی جانب سے ڈوکلم پر تعینات دونوں ملکوں کی فوجوں کو یہ پیغام بھیجا گیا تھا کہ ٹکراو¿ سے اجتنا ب برتنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ لداخ میں چینی فوجوں کے ہندوستانی فوجیوں سے ٹکراو¿ کے چار روز بعد 9مئی کو سکم میں ناکو لا درے کے قریب بھی ان دونوں ممالک کے فوجوں کا آمنا سامنا ہو چکا ہے۔اس میں دونوں ملکوں کے تقریباً150فوجی ایک دوسرے سے بھڑ گئے جس میں طرفین کے دس فوجی زخمی ہو گئے۔چین کی جانب سے لیپو لیکھ تراہے پر نیپال کی آڑ میں یا براہ راست جارحیت کی صورت اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہندوستان کے ذریعہ اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کیا جانا متوقع ہے۔چین نے حکمراں بی جے پی کے دو ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے تائیوان کے صدر کا انتخاب دوسری بار جیتنے پر تسائی اینگ وین کو مبارکبادی کے پیغامات ارسال کرنے پر بھی احتجاج کیا۔واحد چین پالیسی پر اصرار کرنے والا چین تائیوان کو تسلیم نہیں کرتا۔وہ ہر حال میں خواہ اس کے لیے اسے طاقت کا ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑے چین تائیوان پر اپنا تسلط چاہتا ہے۔دوسری جانب تائیوان نے ایک آزادی حامی لیڈر تسائی اینگ وین کو لگاتار دوسری بار منتخب کیا ہے۔ تسائی کے تحت تائیوان چینی ممکنہ جارحیت کے خلاف اپنا دفاع مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہیں۔اپنی فوجی تیاری میں اضافہ کے لیے تائیوان نے اپریل میں کوویڈ 19-وبا کے درمیان اپنا ایک میزائل تجربہ کیا ہے۔جب یہ میزائل تیار ہونے کے بعد چین کے اندر تک مار کر سکتا ہے۔تائی کے تت تائیوان نے اپنی بری و بحری افواج کے لیے امریکہ سے 8بلین ڈالر کے ایف16جنگی طیارے اور2بلین ڈالر کے میزائلوں کی خریداری کے معاہدے کیے ہیں۔امریکہ تائیوان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔اس سے چین کے اس اصرار کی دھجیاں بکھرتی ہیں کہ کسی ملک کو تائیوان کے ساتھ سفارتی و فوجی تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں۔ گذشتہ کئی برسوں کے دوران امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات اس قدر خراب نہیں ہوئے جتنے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں ہوئے ہیں ۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے 2018سے امریکہ چین تجارتی جنگ میں زبردست شدت آئی ہے۔جنوب و ایشیا سمندروں پر چین کے دعوے کو قبول کرنے سے امریکہ کے انکار سے چین کو یہ کہنے میں دیر نہیں لگی کہاسے ٹرمپ حکومت سے اپنی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔کوویڈ19-پر زبانی جنگ نے امریکہ و چین کے درمیان کشیدگی کو اور ہوا دی ہے۔ ٹرمپ نے دنیا بھر میں کرونا وائرس وبا پھیلانے کاکھلے عام چین پر الزام لگایا اور کہا کہ اس کا احتساب کیا جانا چاہئے۔ٹرمپ نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ شی جن پینگ سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے یہاں تک کہ ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز احتجاجوں پر چین کو سخت سست کہا ہے۔امریکی فضائیہ اس سال جنوب و ایشیا چینی سمندروں پر 40سے زائد بار بمباری کر چکی ہے۔چین نے کہا ہے کہ اسے ان ممالک سے اپنی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں جو اس کے ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے یکطرفہ کارروائی کرنے میں لگے ہیں۔اس پس منظر میں شی جن پینگ نے چینی افواج کو جنگی تیاری کرنے کا حکم دے کر سب کو یہ اندازے لگانے اور قیاس آرائیاں کرنے پر مجبو رکر دیا کہ سرکاری خبر رساں ایجنسی کے توسط سے اعلان عام کرنے کے پس پشت ان کا حقیقی منصوبہ کیا ہے۔کیا چین واقعی جنگ چاہتاہے؟ اگر ایسا ہے تو وہ کس کے خلاف جنگ چھیڑنا چاہتا ہے اور وہ بھی کوویڈ 19-وبا کے سائے میں؟