بیجنگ: چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹ(بی آر آئی) منصوبہ اس سے وابستہ اتحادی ممالک کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ساؤتھ ریسرچ انیشیٹو (ایس ایس آر آئی ) کی رپورٹ کے مطابق زیمبیا، پاکستان، لاس، انگولا اور سری لنکا کے حقائق کا تجزیہ کرنے کے بعد بی آر آئی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگنے شروع ہو گئے ہیں۔ اس منصوبے کے ذریعے چین نے پوری دنیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ چین نے بی آر آئی کے ذریعے ان ممالک میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اور ان ممالک کو خواب دکھائے ہیں کہ وہ ان کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنائے گا جس سے انہیں معاشی ترقی میں مدد ملے گی۔
حالانکہ ان دنوں چینی حکومت بی آر آئی کے تحت نئے قرضے جاری نہیں کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق طویل المدتی نتائج کی فکر کیے بغیر بی آر آئی منصوبے کو بہت تیزی سے نافذ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی ممالک اس منصوبے کی حمایت کرتے ہیں، لیکن مالی تعاون نہیں کرنا چاہتے، ان کا خیال ہے کہ زیادہ تر اخراجات چین کو برداشت کرنا چاہیے۔ اب ان پانچ ممالک میں حکومت کے ان اقدامات سے عوام میں بے اطمینانی بڑھ گئی ہے، جو چینی سرمایہ کاری کے نتیجے میں فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔ چین کی امداد کا بوجھ اتنا بڑھتا جا رہا ہے کہ سری لنکا جیسے ممالک اسے ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ چین کے قرضوں کے جال میں پھنسا، سری لنکا ڈیفالٹ کر گیا ہے اور اپنا غیر ملکی قرض ادا کرنے سے قاصر ہے۔ حالات ایسے بن گئے کہ عوام نے بغاوت کر دی اور چین نواز گوتابایا راجا پاکسے کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔
ایس ایس آر آئی کی رپورٹ کے مطابق، چین نے کارپوریشنز، سول سوسائٹی گروپس اور مقامی باشندوں کے تحفظات پر غور کیے بغیر زیادہ تر حکومتی اداروں کے ساتھ بات چیت پر توجہ دی۔زیمبیا، پاکستان، انگولا، لاس اور سری لنکا کے ساتھ چین کی مصروفیت سے اس مسئلے کی بہترین مثال ملتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین کی جانب سے 2013 میں شروع کیے گئے بی آر آئی منصوبے کی وجہ سے شراکت دار ممالک میں معاشی، سماجی اور سیاسی تبدیلیاں نظر آرہی ہیں۔ چینی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کے لیے زیمبیا کی حکومت کی طرف سے کوئی حکمت عملی نہیں رکھی گئی ہے۔ زیمبیا اس بات پر بھی خاموش ہے کہ چینی سرمایہ کار ملک کے صنعتی شعبے کو تباہ کر رہے ہیں۔ ایس ایس آر آئی کے مطابق چین کے بی آر آئی پراجیکٹ نے پاکستان میں سماجی بے چینی پیدا کی ہے اور معاشی عدم استحکام کو بھی جنم دیا ہے۔ پاکستان کی حالت بھی خراب ہے۔ مقامی کمیونٹی مچھلیاں پکڑ کر روزی کماتی تھی جو اب سخت حفاظتی انتظامات کے باعث رک گئی ہے۔
جنوب مشرقی ایشیائی ملک لاس ان دنوں چین کے بڑے قرضوں کے جال کی گرفت میں ہے۔ چین نے طویل عرصے سے لاس کے بنیادی ڈھانچے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ چین لاس میں پالیسی سازی کے عمل کو متاثر کرنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کر سکتا ہے۔ ریئل اسٹیٹ مارکیٹ بنانے کے لیے قانون سازی کی اصلاحات کے فقدان کی وجہ سے انگولا کی ہچکچاہٹ کے نتیجے میں چین نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں کے شہریوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سری لنکا میں بی آر آئی کے منصوبے کرپشن اور شفافیت کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ سنگاپور پوسٹ نے حال ہی میں رپورٹ کیا ہے کہ چین 2023 تک بی آر آئی کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے، 140 شراکت دار ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ 2022 کی طرح 2023 میں بھی چین نے ٹرینوں کی نقل و حمل کی صلاحیت بڑھانے کے لیے کوششیں کرنے کی تجویز دی ہے۔
