پاکستان کے بلوچستان صوبے میں سکیورٹی فورسز کے ذریعے سیاسی کارکنان کے جبراً اغوا کی مذمت کرنے کیلئے بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے ذریعے ایک آن لائن مہم چلائی جارہی ہےبی این ایم کے رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے جبری اغوا کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ‘ سیو ڈاکٹر دین محمد بلوچ ‘ نامی مہم شام چار بجے سے لیکر رات دس بجے تک چلائی گئی۔ڈاکٹر محمد کا پاکستانی فوج کے ذریعے زبردستی اغوا کرلیا جس کی رپورٹس سوشل میڈیا پر چلائی گئیں۔ بی این ایم کے لیڈر کے غائب ہونے کے 13 سالوں کی سالگرہ کے موقع پر یہ مہم چلائی گئی۔بی این ایم کے ذریعے دنیا کے کئی حصوں میں احتجاجی مارچ منعقد کئے جارہے ہیں۔ جرمنی کے ایک شہر منسٹر میں ایک عوامی احتجاج کے دوران بی این ایم نے بین الاقوامی برادری کو بلوچستان میں پاکستان کے بڑھتے مظالم کے تئیں نوٹس لینے کو کہا ہے۔یہ احتجاج اذیت کے شکار لوگوں کی حمایت اور نشیلی دوائیوںکے غلط استعمال اور غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف انٹرنیشنل ڈے پر کئے گئے۔
میڈیا میں آئی رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں روزانہ ہی بلوچ لوگوں پر ظلم اور بربریت عام ہو چکی ہے۔متعدد احتجاجوں کے دوران ڈاکٹر محمد کے غیر قانونی طریقے سے لاپتہ کیے جانے کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ اس دوران بین الاقوامی انسانی حقوق تنظیموں کو پاکستان کے غیرانسانی کاموں پر نوٹس لینے کو کہا۔مظاہرین کا کہناتھا کہ بلوچستان کے لوگوںکے ادھیکار عام شہریوںکی طرح ہیں۔ اس مظاہرے میں بلوچ ری پبلکن پارٹی کے ممبران نے بھی حصہ لیا۔اس سے پہلے مئی کے مہینے میں لاپتہ بلوچ لوگوںکے پریوارک ممبران نے پاکستانی سرکار اور سکیورٹی ایجنسیوںکے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ جس میں اپنے لیڈرو ںکی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔کارکنان سمی بلوچ کی قیادت میں منعقد احتجاج کے دوران انہوںنے کہاکہ پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں کے ذریعے ان کے ہر دلعزیز لیڈروں اور کنبہ کے ممبران کو زبردستی اغوا کرلیا جاتا ہے اور بعد میں انہیںلاپتہ کر دیاجاتا ہے۔ایسے لوگوںکے بارے میں نہ تو بتایا جاتا ہے نہ ہی ان کے بارے میں کوئی جانکاری مہیا کروائی جاتی ہے۔ سمی بلوچ نے ہیومن رائٹس آرگنائزیشن اور میڈیا کے کردار پر بھی سوال اٹھائے۔
سمی کے مطابق میڈیا نے اس احتجاج کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی اور نہ ہی اسے کوئی کوریج دی گئی۔ پچھلے سال بی این ایم کے نیدرلینڈز زون نے ایمسرٹڈم میں ایک احتجاج کا انعقاد کیا جوکہ لاپتہ لوگوںکے بارے میں تھا۔اس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی محفوظ رہائی کی جائے اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں دیگر بلوچ لوگوں کی محفوظ رہائی کی بھی مانگ کی گئی جو زبردستی اغوا کئے گئے ہیں۔بلوچستان میں سیاسی کارکنان ،ا سٹوڈنٹس اور دیگر دانشوروں کے زبردستی لاپتہ ہونے کی خبریں آنی عام بات ہو چکی ہے۔ اختلافات کو دبانے کے لئے پاکستانی سکیورٹی فورسز نے ایک مہم بھی چلائی تھی ۔ بلوچستان اورخیبر پختون خوا صوبے میں لاپتہ لوگوںکی گنتی کا صحیح انداز لگانا مشکل ہے۔
