Israel’s Knesset passes bill to withdraw nationality from Palestinian detaineesتصویر سوشل میڈیا

یروشلم:اسرائیلی نشریاتی ادارے کے مطابق اس قانون کے مطابق یہ ممکن ہے کہ کسی بھی اسرائیلی عرب شہری کی شہریت منسوخ کر دی جائے اور اس کی سزا کے اختتام پر اسے فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا جائے اگر اس نے کوئی دہشت گردانہ کارروائی کی ہے۔ اس مسودہ قانون کے مطابق شہرت کی منسوخی کو اس کے فعل کا بدلہ شمار کیا جائے گا۔اسرائیلی کنیسٹ میں یہ بال حکومتی اتحادی جماعتوں لیکوڈ ، ”ریلجیس زائیون ازم ’اوٹزما یہودیت اور یونائیٹڈ توراہ جوااز م اسی طرح دو اپوزیشن جماعتوں لاپڈ کی سربراہی میں ’یش عتید ور بینی گانٹز کی سربراہی میں نیشنل کیمپ نے پیش کیا ہے۔بلوں کو داخلہ اور ماحولیاتی تحفظ کی کمیٹیوں کو منتقل کر دیا جائے گا تاکہ انہیں ان کی پہلی ریڈنگ کے لیے تیار کیا جا سکے۔ بلوں کے متن میں کہا گیا ہے کہ یہ بل آپریشن کرنے کے لیے تنخواہ وصول کرنے اور شہریت یا رہائش کے حق کے درمیان ایک واضح تعلق کی تجویز کرتا ہے۔71 ارکان نے بل کی حمایت کی اور 9 ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔۔

کنیسٹ رکن احمد طیبی نے کہا کہ یہ اپنی بنیادوں سے نسل پرستانہ قانون سازی ہے۔ دو روز قبل کنیسٹ کمیٹی نے ان بلوں کے لیے قانون سازی کے اقدامات کو آگے بڑھانے کی منظوری دی تھی۔منگل کے روز کنیسٹ کی پلینری نے پہلی ریڈنگ میں ہنگامی ضابطوں کی توسیع کی منظوری دی جو مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں پر اسرائیلی قانون نافذ کرتے ہیں۔ اس بل کو نسل پرستی کے قانون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بل کی حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے 58 کنیسٹ اراکین نے حمایت کی اور 13 نے اس کی مخالفت کی۔یہ ابتدائی منظوری 1948 کی سرزمین میں قیدی کریم یونس کی رہائی کے چند دن بعد ہوئی ہے، قابض وزیر داخلہ نے کریم یونس سے اپنی اسرائیلی قومیت کو واپس لینے کی درخواست کی تھی۔دوسری طرف فلسطینی کمیشن برائے امور اسیران نے اس مسودہ قانون کی شدید مذمت کی اور ایک بیان میں واضح کیا کہ قابض اسرائیل اپنے اپنے فوجی، سیاسی اور دیگر تمام جہات سے قیدیوں کے خلاف اپنی خوفناک کارروائیوں سے باز نہیں آرہا۔کمیشن کے مطابق قابض حکومت جبر، تشدد اور قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے طریقے استعمال کرنے کے باوجود مطمئن نہیں بلکہ وہ ان سے وطن کی آزادی کے لیے سیاسی اور قانونی حق بھی چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔

کنیسٹ کے ذریعہ سے صوابدیدی قوانین منظور کر کے فلسطینی قیدیوں کو ان کی جدوجہد میں کردار سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔کمیشن نے وضاحت کی کہ یہ مسودہ قانون نام نہاد قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر کی طرف سے قیدیوں کے خلاف شروع کی گئی شدت پسندی اور سخت اقدامات کے ایک حصے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ بن گویر نے گزشتہ دنوں اپنے دورہ حدریم جیل کے بعد ان اقدامات پر عمل درآمد شروع کیا۔ اس دورہ کے دوران اسرائیلی وزیر نے قیدیوں پر شکنجہ کسنے اور حراستی مراکز کے اندر ان کی زندگیوں کو ناقابل برداشت بنانے کے لیے نئے اقدامات نافذ کرنے کی دھمکی دی تھی۔کمیشن نے واضح کیا کہ اسیر تحریک کے افراد قیدیوں کے خلاف کسی بھی قسم کی شدت کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ انہوں نے قومی کارروائی کے مختلف دھڑوں سے قومی کمیٹیاں تشکیل دے کر عوامی سطح پر متحرک ہونا شروع کر دیا ہے تاکہ جیل انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی ناپاک اقدام کا مقابلہ کیا جا سکے۔فلسطینی اسیر کلب نے واضح کیا ہے کہ اسرائیلی مسودہ قانون کچھ نہیں بلکہ جامع نقل مکانی کی کارروائیوں اور فلسطینیوں کی موجودگی کے خلاف جنگ میں ایک نئی شق کا اضافہ ہے۔کلب کے مطابق یہ نقل مکانی ایک دن بھی نہیں رکی بلکہ اس کی راہیں نسل پرستانہ قوانین اور مسودہ قوانین کی تشکیل کے ذریعے پھیل رہی ہیں۔ یہ قوانین قابض اسرائیل کی جانب سے گذشتہ کچھ سالوں سے فلسطینیوں کے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کا ایک نمایاں ہتھیار ہیں۔ ایسے قانون کے بعد ضروری ہے کہ فلسطینی قومی تحریک کی جانب سے سنجیدہ اور فیصلہ کن موقف سامنے لایا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *