بیجنگ : تائیوان کی حمایت کے بعد امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بحیرہ جنوبی چین میں دونوں ممالک کی بحری افواج آمنے سامنے ڈٹی ہوئی ہیں۔ چینی لڑاکا طیارے کی تصویر سامنے آئی ہے جس میں وہ امریکی جنگی جہاز کے اوپر سے پرواز کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ امریکہ کا جنگی جہاز ارل برک کلاس کا بتایا جا رہا ہے۔ تاہم اس واقعے کے وقت اور جگہ کے بارے میں کوئی واضح معلومات نہیں مل سکی ہے۔ اس کے باوجود امریکی جنگی جہازوں پر چینی لڑاکا طیاروں کی پرواز کو بہت اہم سمجھا جا جا رہا ہے۔ سیکورٹی کی وجہ سے دنیا کے تمام ممالک بالخصوص دشمن ممالک بین الاقوامی پانیوں میں ایک دوسرے کے جنگی جہازوں، طیارہ بردار جہازوں سے کافی فاصلہ رکھتے ہیں۔ تصویر سے لگتا ہے کہ امریکہ جنگی جہاز کے اوپر سے لڑاکا طیارہ اڑا کر چین کو اکسانے کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر میں امریکی جنگی جہاز کے اوپر سے پرواز کرنے والے لڑاکا طیارے کی شناخت چینی بحریہ کے J-15 کے طور پر کی گئی ہے۔ J-15 ایک لڑاکا طیارہ ہے جو ایک چینی طیارہ بردار جہاز سے اڑتا ہے۔ ایسے میں ماناجارہا ہے یہ واقعہ چین کی سرزمین سے بہت دور جنوبی یا مشرقی بحیرہ چین میں ہو سکتا ہے۔چینی بحریہ کے پاس اس وقت دو طیارہ بردار بحری جہاز آپریشنل ہیں۔ ان کے نام لیاو¿ننگ اور شیڈونگ ہیں، جو زیادہ تر وقت بحیرہ جنوبی چین میں گشت کرتے ہیں۔ J-15 لڑاکا طیارے ان دو طیارہ بردار جہازوں پر تعینات ہیں۔ ارل برک کلاس جنگی جہاز اس وقت امریکی بحریہ میں کام کرنے والا سب سے بڑا ڈسٹرائر ہے۔ ارل برک کلاس کے جنگی جہازوں پر مختلف قسم کے جدید ہتھیار اور نظام تعینات کیے گئے ہیں۔
یہ گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر 1991 میں امریکی بحریہ میں تعینات کیا گیا تھا۔ یہ جنگی جہاز روسی آبدوزوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اب اس کی تعیناتی زیادہ خطرے والے علاقوں میں اینٹی ایئر، اینٹی سب میرین، سطحی اور زمینی حملوں کو روکنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس جنگی جہاز پر سی اسپرو، ٹوم ہاک اور اے ایس آر او سی اینٹی سب میرین میزائل تعینات ہیں۔ J-15 لڑاکا طیارے بنیادی طور پر طیارہ بردار بحری جہازوں سے چلائے جاتے ہیں۔ یہ طیارہ چین نے یوکرین سے خریدے گئے Su-33 کے نامکمل پروٹو ٹائپ سے تیار کیا ہے۔ چینی بحریہ میں اس وقت کم از کم 34 J-15 لڑاکا طیارے ہیں۔ یہ چین کے دو طیارہ بردار بحری جہازوں پر کام کرنے والے واحد فکسڈ ونگ طیارے ہیں۔ اس طیارے کو کئی چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، کیونکہ یہ طیارہ بردار بحری جہاز سے اڑان بھرنے والا دنیا کا سب سے بھاری لڑاکا طیارہ بھی ہے ۔
