"A country that kills girls should be destroyed":تصویر سوشل میڈیا

تہران (اے یو ایس ) ایران میں نومبر کے مہینے سے روزانہ کی بنیاد پر سکولوں اور یونیورسٹی کی طالبات کو نشانہ بنانے والے مشتبہ حملے سامنے آرہے ہیں۔ کئی ایرانی کارکنوں کے مطابق ان حملوں میں سے ایک میں جمعرات کی شام کرج میں یونیورسٹی ” 17 شریفار“ میں لڑکیوں کے ہاسٹل پر زہریلی کیمیائی گیس سے حملہ کیا گیا۔ اس حملے کے باعث کئی طلبہ کو ہسپتال لے جایا گیا۔دارالحکومت تہران کے ضلع امیرآباد میں عمارتوں کی چھتوں اور کھڑکیوں سے رات کے وقت نعرے بلند کیے گئے اور ان حملوں کی مذمت کی گئی۔ ان حملوں کے اسباب اور حملہ آوروں کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔ تہران کے مکینوں نے الزام عائد کیا کہ ان حملوں کے ذمہ دار حکام ہیں۔ایرانی حکومت کے خلاف نعرہ زنی کی گئی۔ ایک نعرہ لگایا گیا کہ ” وہ ریاست ختم ہوجائے جو لڑکیوں کو قتل کرتی ہے“ ایک اور نعرہ میں ” مرگ بر اسلامی جمہوری?“ کہا گیا۔ ” مرگ بر آمر“ کے نعرے بھی لگائے جاتے رہے۔بدھ کے روز 100 سے زائد طالبات کو سکولوں میں زہریلی گیس کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ نومبر سے طالبات پر ایسے حملے تسلسل کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔

طالبات کو ہسپتال میں لانے والی سروس کے سربراہ نے بتایا کہ ملک کے شمال میں شہر اردبیل میں لڑکیوں کے سات سکولوں کی طالبات نے زہریلی گیس میں سانس لیا اور گیس میں سانس لے کر زیادہ حالت خراب ہونے کے باعث 108 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔تہران کے کم از کم تین سکولوں میں زہر دینے کے نئے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ خبر ایجنسی ” فارس“ نے نے طالب علموں کے والدین کے حوالے سے بتایا کہ دارالحکومت کے مغرب میں واقع ایک سیکنڈری سکول میں طلبہ کو ایک قسم کا سپرے چھڑک کر زہر دیا گیا۔جہاں تک قم شہر کا تعلق ہے پارلیمانی ہیلتھ کمیٹی کی ترجمان زہرائ شیخی نے بتایا کہ نومبر 2022 کے آخر میں سانس کے زہر کے پہلے کیسز ریکارڈ کیے جانے کے بعد سے تقریباً 800 طالبات متاثر ہوئی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مغرب میں شہر ”بروجرد“ میں 400 افراد کو زہریلی گیس کا سامنا کرنا پڑا۔وزارت صحت کی طرف سے کی گئی جانچ کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ قم میں استعمال ہونے والا زہریلا مادہ بنیادی طور پر نائٹروجن گیس ” این 2“ پر مشتمل ہے جو بنیادی طور پر نائٹروجن سے بنتی ہے اور صنعت میں یا زرعی کھاد کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔حزب اختلاف کے بہت سے کارکنوں نے ان حملوں کا ذمہ دار حکام کو ٹھہرایا اور بتایا کہ ان حملوں کا مقصد یہ ہے کہ حکام لڑکیوں کو دھمکانا چاہتے ہیں۔ ستمبر کے وسط سے ایران میں حجاب نہ پہننے پر اخلاقی پولیس کی طرف سے گرفتار ہونے کے بعد خاتون مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت کے بعد سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ یہ احتجاجی اب چھٹے ماہ میں بھی جاری ہیں۔ایران میں ہزاروں افراد نے ” عورت، آزادی ، زندگی” کا نعرہ بلند کیا تاکہ خواتین کیلئے پردے کے لازمی قانون کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا سکے۔ تاہم سیکورٹی فورسز نے ان مظاہروں کا پرتشدد جواب دیا اور ہزاروں کو گرفتار کر لیا۔ کچھ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان مظاہروں میں اب تک تقریباً 400 مظاہرین مارے گئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *