China’s current nuclear expansion underlines quest for status, says UK forumتصویر سوشل میڈیا

ڈیموکریسی فورم (ٹی ڈی ایف) کے، جو ایک غیر منافع بخش غیر سرکاری تنظیم ہے اور عوامی بحث کے ذریعے جمہوریت، تکثیریت اور رواداری کے نظریات کو فروغ دیتی ہے،پرچم تلے ایک پینل مباحثہ میں مقررین نے کہا کہ رتبہ حاصل کرنے کی ہوس ، مزاحمت کے بدلتے نظریات اور تائیوان پر دوبارہ قبضہ کرنے کی خواہش چین کے موجودہ جوہری توسیع کے محرکات میں شامل ہیں۔ڈیموکریسی فورم (ٹی ڈی ایف) اگست پینل ، جس نے اس بات پر کہ وہ کون سے ایسے محرکات ہیں جو اس قدر زبردست جوہری توسیع کا باعث بنے ہیں، توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی وسعت اور جنگی حکمت عملی کے تقاضوں کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ 2021 میں پینٹاگون کے اس اعتراف کو یاد کرتے ہوئے کہ پیپلز لبریشن آرمی(پی ایل اے) 2030 تک اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں چار گنا اضافہ کر کے 1000تک پہنچانے کی راہ پر ہے۔ ٹی ڈی ایف کے صدر لارڈ بروس نے بدھ کے روز کہا کہ چین کی جوہری توسیع بے لگام ہوتی جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اس جانب جارحانہ انداز سے پیشرفت کر رہا ہے۔ آسٹن لانگ جیسے تجزیہ کاروں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ پنٹاگون کے اس جائزے کی روشنی میں ، کہ 2035 تک چینی جوہری صلاحیت 1500 ہتھیاروں تک ہو جائے گی، 2030 تک چین کی جوہری طاقت کی ساخت اور کرنسی جیسے بہت سے معاملات میں امریکہ اورروس کے مماثل ہو گی۔

لارڈ بروس نے حال ہی میں چین کا دورہ کرنے والے سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے اس انتباہ کو بھی اجاگر کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ چین اور امریکہ کے درمیان اعتماد کے فقدان سے انسانیت کا مستقبل خطرے میں ہے جس سے پوری دنیا زبردست ٹکراؤ کی رہ پر چل پڑے گی۔کیونکہ دونوں فریق خود کو اس کا قائل کر لیں گے کہ فریق ثانی ایک ا سٹریٹجک خطرہ کی شکل میں منڈلا رہاہے۔ کسنجر کے دورے کے ایک ہفتے کے بعد ہی چینی حکومت نے ایک نظرثانی شدہ خارجہ تعلقات قانون شائع کیا۔ آرٹیکل 33 میں کہا گیا ہے کہ چین کو ایسے اقدامات کے خلاف جو بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں یا چین کے اقتدار اعلیٰ، خودمختاری، سلامتی یا ترقی کے مفاد کو کمزور کرتے ہیں، جوابی اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس طرح کے اقدامات میں امریکہ، جاپان اور دیگر ممالک کی طرف سے عائد کردہ سیمی کنڈکٹر سے متعلق برآمداتی پابندیاں شامل ہو سکتی ہیں۔ اپنی انتباہی تقریر کا اختتام کرتے ہوئے لارڈ بروس نے امریکہ اور روس کے ساتھ جوہری برابری حاصل کرنے کے لیے اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے کو سپر پاور کے سائز کا بنانے کے چین کے فیصلے کے محرک پر دفاعی تجزیہ کار اینڈریو کریپینی وچ کے زور دینے کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کریپینی وچ کے انتباہ پر بھی روشنی ڈالی کہ برابری سہ قطبی نظام میں حاصل نہیں کی جا سکتی کیونکہ ہر رکن کے لیے اپنے دو حریفوں کے مشترکہ ہتھیاروں سے مماثل ہونا ممکن نہیں ہے۔ ایسا کرنے کی کسی بھی کوشش سے اسلحے کی دوڑ شروع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جس کا کوئی ممکنہ اختتام یا فاتح نہیں ہوتا۔

چین کی جوہری توسیع اس کے وسیع ترجغرافیائی حکمت عملی کے عزائم کے تناظر میں رکھی گئی تھی جیسا کہ ایک سابق برطانوی سفارت کار اور جیو اسٹریٹجی کونسل کے ایسوی ایٹ میتھیو اینڈرسن شی جن پینگ کے مذکورہ اغراض و مقاصد اور نظریاتی محرک منظر عام پر لائے ہیں۔ انہوں نے چین کے بڑھتے جوہری ذخیرے کے ذریعے اٹھائے گئے کلیدی مسائل کی نشاندہی کی، جو عالمی سلامتی کے ڈھانچوں کو درہم برہم کرتاہے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے جمہوریت، عالمی امن اور استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آتا ہے۔ اگرچہ چین کے جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت کا اصل مقصد کم سے کم پہلے استعمال نہ کرنے سے باز رکھنے کا تھا، پچھلے پانچ سالوں میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ کرنے اور ان کی فراہمی کے ذرائع میں جدت پیدا کرنے کے منصوبوں میں کافی پیش رفت کی گئی ہے۔یہ جوہری ذخیرہ الگ تھلگ ڈال دیے جانے کی حالت میں نہیں ہو ر ہا ہے، بلکہ اس کی زبردست اقتصادی ترقی کے پیش نظر دنیا بھر میں چین کی طاقت کے مظاہرے کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ امریکہ اور اس کے شراکت داروں کے ساتھ بڑھتی ہوئی سیاسی، اقتصادی اور تکنیکی کشیدگی اس کو اکسانے کا باعث بن گئی ہے کیونکہ چین طویل عرصے سے عالمی نظام پر نظر ثانی کرنے اور امریکہ کی جگہ خود کو عالمی سپر پاور کے طور پر پیش کرنے کے عزائم رکھتا ہے۔

ٹی ڈی ایف نے جن معاملات پر تبادلہ خیال کیا اس میں کہا گیا کہ چین پہلے سے ہی توسیع پسندی میں لگا ہوا ہے ۔جس میں سائبر جاسوسی، پروپیگنڈا مہم، ٹیکنالوجی میں سرقہ اور اقتصادی/سیاسی دباؤ شامل ہے۔ تائیوان پر اپنی خودمختاری کو دوبارہ قائم کرنے کی چین کی کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہینڈرسن نے یہ تیکھا سوال اٹھایا کہ تائیوان کو امریکہ اور دیگر سے کس حد تک دفاعی حمایت مل سکتی ہے یا ملنی چاہئے، اس کے ساتھ ہی چین کی نام نہاد پہلے استعمال نہیں کی پالیسی پر بھی ، جو شی جن پینگ کے نظریہ کے لیے زیادہ دیر پا نہیں ہے، شبہ ظاہر کیا۔یوکرین پر روسی حکومت کے ساتھ چین کا اتحاد عالمی سلامتی کے ڈھانچے کے لیے ایک اور جوہری چیلنج پیدا کرتا ہے، جبکہ ا سٹریٹجک جوہری خلل کی دوسری سطح پہلے ہی پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں چین کی شمولیت سے پیدا ہو چکی ہے۔تاہم، ہینڈرسن کے لیے، ایک آزاد تائیوان کا وجود ہی اس پیچیدہ بحران کا مرکز ہے۔انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ چین کے جوہری ذخیرے کا لب لباب یہ ہوگا کہ امریکہ یہ فیصلہ کرے گا کہ چین اس کے ساتھ جوہری تصادم کا خطرہ مول لینے کے لیے کتنا مسلح ہے اور یہ کہ بالآخر تائیوان ایک بھی گولی چلائے بغیر غاصب کے آگے گھٹنے ٹیک دے گا۔ اگراس قسم کا کوئی نتیجہ برآمد ہوا تویہ خطے اور اس سے باہر کی جمہوریتوں پر ایک کاری وار ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *