واشنگٹن:(اے یو ایس ) امریکی ریاست جارجیا کے ساحلی شہر برونزوک میں جیوری نے بدھ کے روز سیاہ فام نوجوان احمد آربری کی ہلاکت کے مقدمے میں تین سفید فام ملزمان کو قصور وار قرار دیا ہے۔ تینوں ملزمان کو اب اگلے سال فروری میں مقدمے کی اگلی سماعت میں سزا سنائی جائے گی، جو کم سے کم عمر قید ہو سکتی ہے۔ تاہم مقدمے کے جج یہ فیصلہ بھی کریں گے کہ دوران سزا ضمانت کی گنجائش ہوگی یا نہیں۔فروری دو ہزار بیس میں سیاہ فام نوجوان احمد آربری کو غیر مسلح حالت میں برونزوک شہر کے ایک سب ڈویژن میں عقب سے تعاقب کر کے ایک سنسان سڑک پر گولی ماری گئی تھی۔ابتدا میں اس کیس کو زیادہ توجہ حاصل نہیں ہوئی، لیکن اس واقعہ کی ایک ویڈیو لیک ہونے کے بعد آربری کی غیر فطری موت امریکہ میں سیاہ فاموں کے ساتھ نسلی بے انصافی کے ایک اور واقعے کی طور پر سامنے آئی۔
فیصلہ سنانے سے پہلے جیوری نے تقریباً 10 گھنٹے تک آپس میں صلاح و مشورہ کیا، جس کے بعد سفید فام ملزمان گریگ مک مائیکل، ان کے بیٹے ٹریوس مائیکل اور محلے دار ولیم روڈی برائن کو آربری کے قتل کا قصور وار قرار دیا گیا۔فیصلہ سنتے وقت ایک ملزم ٹریوس مائیکل کے وکیل کا بازو ان کے کولہے پرتھا۔ ایک مرحلے پر ٹریوس نے اپنا سر اپنے سینے کی جانب جھکا دیا۔ کمرہ عدالت سے جاتے وقت انہوں نے کمرے میں موجود اپنی والدہ سے ‘لو یو’ کے الفاظ کہے۔آربری کے والد نے کہا کہ آپ نے کیا کچھ نہیں کیا ۔کمرہ عدالت کے باہر احمد آربری کے والد کے وکیل، بین کرمپ نے کہا کہ احمد کی روح نے سنگ باری کے مرتکب افراد کو شکست دی ہے۔فیصلہ آنے پر آربری کی والدہ، وینڈا کوپرجونز نے عدالت کے باہر جمع ہونے والے اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ انھیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ وہ یہ دن دیکھ پائیں گی۔
بقول ان کے یہ ایک طویل لڑائی تھی۔ یہ مشکل لڑائی تھی۔ لیکن خدا مہربان ہے ۔23 فروری 2020 کے دن جارجیا کے شہر برنکزوک میں جب 25 برس کا غیر مسلح نوجوان احمد آربری اپنے ہی محلے میں کہیں جا رہا تھا، ایک سفید فام ملزم مک مائیکل نے اپنی پک اپ ٹرک سے بندوق نکالی اور ان کا پیچھا کیا۔ دوسرا ملزم برائن بھی اپنی پک اپ میں ان کے پیچھے گیا ، جبکہ تیسرے ملزم نے سیل فون پر آربری پر گولی چلانے کے واقعے کو ریکارڈ کیا۔باپ اور بیٹے نے پولیس کو بتایا کہ انہیں اس بات کا شک تھا کہ آربری چوری کرکے بھاگ رہا ہے۔ لیکن،سرکاری وکیل نے یہ دلیل دی تھی کہ خود انہی لوگوں نے ایسا ماحول پیدا کیا ورنہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ آربری محلے میں کوئی جرم کرکے بھاگا ہو۔صدر جو بائیڈن نے کیس میں ججز کا فیصلہ سننے پر اپنے رد عمل میں کہا کہ آربری کا قتل اس بات کی پریشان کن یاد دہانی ہے کہ امریکہ میں نسلی انصاف حاصل کرنے کے لئے کتنا کام کرنا ابھی باقی ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ ملزمان کے قصور وار ثابت ہونے سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام اپنا کام کر رہا ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ ہمیں اپنے مشترک اور یکساں مستقبل پر کام کرنا ہوگا، جہاں کسی کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ اسے اپنی رنگت کی بنا پر تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اگرچہ مقدمے کے وکلا نے اس بات پر بحث نہیں کی کہ قتل کے پیچھے نسلی تعصب تھا یا نہیں، لیکن وفاقی حکام نے ملزمان پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے آربری کا تعاقب اور قتل اس کے سیاہ فام ہونے کی بنا پر کیا۔ یہ کیس کی اگلی سماعت اب فروری میں ہوگی۔