کابل(اے یو ایس ) افغانستان میں طالبان تحریک کے سربراہ ”ھبة اللہ اخونزادہ“ کو نیا چیلنج درپیش ہے۔ ان کی حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کو عارضی قرار دے دیا ہے۔ حقانی نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کی تعلیم معطل کرنے کا معاملہ ایک عارضی فیصلہ ہے اور یہ پابندی مستقل نہیں ہے۔ جمعہ کے روز علما کے وفد کے ساتھ اپنی ملاقات میں سراج الدین حقانی نے کہا تحریک اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اسلام نے مردوں اور خواتین دونوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا لازم قرار دیا ہے۔”العربیہ “کے نمائندے کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان تعلیم کے تحفظ سمیت افغان عوام کے تمام جائز حقوق کے لیے پرعزم ہیں۔ باخبر ذرائع نے اس سے قبل ”العربیہ“ اور ”الحدث“ کو اطلاع دی تھی کہ اس معاملے پر طالبان تحریک کے اندر انحراف کے آثار موجود ہیں۔
ذرائع نے اس وقت یہ بھی بتایا تھا کہ طالبان حکومت کے کچھ وزرا نے طالبان سربراہ ”ھبت اللہ اخونزادہ“ کو ایک خط بھیجا ہے جس میں ان سے لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے کام پر پابندی پر نظر ثانی کرنے کو کہا گیا لیکن اخونزادہ نے انہیں ایک جملے کے ساتھ جواب دیا تھا کہ “اگر آپ ثابت کردیں کہ اسلام 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو گھر سے نکلنے کی اجازت دیتا ہے تو میں لڑکیوں کو تعلیم اور کام کرنے کی اجازت دے دوں گا“ذرائع کے بقول دریں اثنا حقانی نے اس وقت زور دیا تھا کہ اگر مارچ 2023میں اگلے تعلیمی سال کے آغاز میں تعلیم کی واپسی اور وزارتی اور عسکری تقرریوں اور برطرفیوں میں ”ھبت اللہ اخونزادہ“ کی مداخلت کو روکنے کے معاملے پر کوئی فیصلہ جاری نہ کیا گیا اور حکومت کے لیے شوریٰ کونسل کی تشکیل نہ دی گئی تو پھر میں قندھار میں طالبان سربراہ اور اپنے قریبی رہنماؤں پر کھلے عام تنقید کرنے سے دریغ نہیں کروں گا۔
واضح رہے طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان کا اقتدار دوبارہ سنبھالا ہے اور اپنے وعدوں کے مطابق خواتین کی تعلیم سمیت کچھ معاملات میں لچک کا مظاہرہ کیا ، تاہم کچھ عرصہ بعد ہی دوبارہ اسی انتہا پسندی کی طرف لوٹ گئے ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے اپنے پہلے دور اقتدار میں 1996 سے لیکر 2001 کے دوران کیا تھا۔