How did Saudi Arabia stop the war between Iraq and Iran?تصویر سوشل میڈیا

ریاض ،(اے یو ایس)جب بانی انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران(آیت اللہ خمینی)انس کے دارالحکومت پیرس سے تہران کے ہوائی اڈے پر واپس آئے تو روح اللہ موسوی خمینی نے جہاز کے کپتان کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاں اتریں۔ انہوں نے ریاست کے جوڑوں پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ انہوں نے رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کو ختم کردیا اور ان کی جگہ ایران میں اقتدار کے سیاہ وسفید کے مالک بن گئے۔رضا شاہ جو اپنی حکومت کو “خلیج کے پولیس مین” کے طور پر پیش کر رہا تھا واپس لوٹے بغیر چلا گیا۔ وہ ایک امریکی “شیورلیٹ” کار پر سوار ہوا جب کہ خمینی کو عوام نے چاروں طرف سے گھیر لیا،جشن منایا اور انہیں “قائد انقلاب” قرار دیا۔یہ واقعہ ایک “اندرونی ایرانی معاملہ” تھا۔ سعودی حکومت نے 1979 میں ایران میں برپا ہونے والے انقلاب کو اسی طرح دیکھا اور اسے ایران کے اندرونی معاملات کا حصہ قرار دیا۔ سعودی عرب اس کے بارے میں کوئی منفی موقف اختیار نہیں کرنا چاہتا تھا، کیونکہ “ہمسایہ ممالک کے معاملات میں عدم مداخلت” سعودی عرب کی دیرینہ پالیسی ہے۔ ایران میں آنے والے انقلاب کے بعد بھی سعودی عرب اس اصول اور پالیسی پرقائم رہا۔مرحوم شاہ محمد رضا پہلوی اپنی توسیع پسندانہ خارجہ پالیسی کے باوجود خلیج کے بہت سے سیاست دانوں کی نظر میں “ایک ایسا مخالف یا مدمقابل تھا جس کے ساتھ کوئی معاہدہ کر سکتا ہے” یعنی ان کے “علاقائی عزائم” ان کے جنگلی پن کے باوجود اور فارس کے گھمنڈ کے باوجود اس سے بات کرنا اور ایک ہی مکالمے کی میز پر بیٹھنا ممکن تھا۔جب خمینی ایران واپس آئے تو ایک نئی حکومت کے خدوخال اپنے پیش رو سے بالکل مختلف نظر آئے اور انہوں نے “اسلامی” نعرہ اپنایا۔ مملکت سعودی عرب نے انقلاب کی فتح پر مبارکباد کا پیغام دے کر ایک خصوصی ایلچی بھیجا۔

مرحوم شاہ خالد بن عبدالعزیز آل سعود کی طرف سے یہ خیر سگالی کا پیغام براہ راست آیت اللہ خمینی کو پہنچایا گیا تھا۔ ایران اس وقت ایندھن کی قلت کا شکار تھا اس لیے سعودی عرب نے “نیک نیتی” کے تحت تہران کو ایندھن بھی فراہم کیا۔سعودی عرب اپنے پڑوس میں “انقلاب” کا پھیلاو¿ روکنا چاہتا تھا اور ایران کے اندر زمین پر کیا ہو رہا ہے اس کی تفصیلات میں مداخلت کیے بغیر “اچھے تعلقات” کی بنیاد پر نئی حقیقت سے نمٹنا چاہتا تھا۔22 ستمبر 1980ءکو عراق ایران جنگ چھڑ گئی جو 20 اگست 1988 تک جاری رہی۔ سعودی عرب صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے تھا کیونکہ سعودی عرب دو پڑوسی ممالک کے درمیان جنگ سے لا تعلق نہیں رہ سکتا تھا۔ عراق اور ایران کے درمیان جاری جنگ سے خلیجی ممالک پربھی منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔جنگ کے خلاف سعودی موقف واضح تھا اور اس کا اظہار مرحوم شاہ فہد بن عبدالعزیز نے کیا تھا۔ وہ اس وقت ولی عہد تھےاور انہوں نے 1979 میں تونس میں منعقدہ عرب سربراہی اجلاس میں مملکت کی نمائندگی کی تھی جہاں شہزادہ فہد بن عبدالعزیز نے عراقی صدر صدام حسین کو کہا تھا جنگ شروع کرنے کا فیصلہ آپ کے پاس ہے لیکن آپ اسے ختم کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔سعودی “جنرل انٹیلی جنس” کے سابق سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان اور “خلیجی جنگ” کی دستاویزی سیریز میں جو کہ سیٹلائٹ چینل “ایم بی سی” نے برسوں پہلے نشر کی تھی نے بات کی کہ کس طرح شاہ فہد بن عبدالعزیز نے صدام حسین سے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ آپ خمینی کو اپنی داڑھی سے گھسیٹیں اور وہ آپ کو آپ کےکھینچ لے!سعودی موقف صدام حسین کے مقابلے میں زیادہ عقلی تھا۔

شاہ فہد بن عبدالعزیز نے انہیں مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں مسائل اور اندرونی اختلافات ہیں اور اگر آپ جنگ چھیڑتے ہیں تو یہ ایران کے مفاد میں ہوگا، کیونکہ وہ پہلے اپنے داخلی محاذ کو متحد کرے گا اور پھر انہیں آپ کے خلاف متحد کر دے گا!یہ سعودی وڑن کمزوری یا ایرانی انتقامی کارروائی کے خوف سے نہیں بلکہ ریاض کے اس فہم کا نتیجہ تھا کہ اگر خلیج عرب میں بھی جنگ چھڑ ے گی تو اس سے سلامتی، فوجی اور اقتصادی مسائل پیدا ہوں گے۔ نیز خلیجی استحکام ترقی کو نقصان پہنچے گا۔آخر کس چیز نے سعودی عرب کو ایران۔ عراق جنگ عراقی حکومت کا ساتھ دینے پرمجبور کیا۔؟ اس سوال کا جواب جنگ کی تفصیلات سے واقف ایک ذریعہ نے دیا ۔سعودی عرب فریق نہیں بننا چاہتا تھا بلکہ عراق کو اس میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کرنے کے لیے کام کیا۔ انہوں نے مزید کہا دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ذریعے جنگ میں واقعات پروان چڑھےاور ایک توسیع پسند ایرانی گفتگو سامنے آئی، جس میں خمینی نے انقلاب برآمدا کرنے کی بات شروع کردی۔ وہ ایرانی انقلاب کے اثرات ہمسایہ میں پھیلانا چاہتے تھے۔ اس کے باوجود سعودی عرب نے جنگ کے سالوں کے دوران جنگ روکنے کے لیے کام کیا۔ مملکت نے عراق اور ایران کے درمیان خفیہ مذاکرات کی سرپرستی کی۔ یہاں تک کہ مذاکرات کا ایک دور مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز کی رہائش گاہ پر ہوا۔ سوئس شہر جنیوا میں ہاو¿س آف سعود سعودی سرپرستی میں دو عراقی اور ایرانی وفود کی شرکت کے ساتھ انتہائی رازداری کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ اس میں ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی اور عراقی وزیر خارجہ طارق عزیز نے شرکت کی۔سعودی عرب کی یہ سنجیدہ کوششیں جو سوئٹزرلینڈ اور امریکا کی توجہ سے ہٹ کر ہوئیں۔ ایران اور عراق کے درمیان مذاکرات کرائے گئے۔ سعودی عرب نے تہران اور بغداد کو جنگ روکنے کے لیے میز پر بیٹھنے کی کئی کوششیں کیں اور انہیں کامیابی کے ساتھ ہم کنار بھی کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *