Mobile library reopens in Afghanistan's capital to please childrenتصویر سوشل میڈیا

کابل:(اے یو ایس ) افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ دارالحکومت کابل کے یتیم خانے میں ایک ایسی موبائل لائبریری کھول دی گئی ہے جو ایک بس میں قائم ہے۔ اس لائبریری کے کھلنے سے طلبہ کے چہرے کھل اٹھے ہیں اور ان میں خوشی و انبساط کی لہر دوڑ گئی۔کابل میں موجود یہ لائبریری ان پانچ بسوں میں سے ایک پر مشتمل ہے جو چارمغز نامی مقامی تنظیم کی جانب سے لیز پر لی گئی ہے۔ یہ تنظیم فرشتہ کریم نامی خاتون نے قائم کی ہے جو آکسفورڈ یونی ورسٹی سے گریجویٹ ہیں۔طالبان کے اگست کے وسط میں افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد لڑکیوں کو سرکاری اسکولوں میں ثانوی تعلیم سے روکنے کے اعلانات سے لڑکیوں کی تعلیم بہت متاثر ہوئی ہے۔

البتہ اتوار کو کابل میں اس موبائل لائبریری کے دروازے دوبارہ کھلنے سے طلبہ خوش دکھائی دیتے ہیں۔خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق 11 سالہ آرزو عزیزی کہتی ہیں کہ انہیں دوبارہ اپنی من پسند کتابیں پڑھنے کا موقع ملا ہے اور وہ اس موقع پر بہت خوش ہیں۔آرزو کے بقول وہ گزشتہ تین ماہ کے دوران لائبریری سے دور تھیں۔حالیہ برسوں میں کابل میں موبائل لائبریریوں کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ طلبہ اسے یومیہ بنیادوں پر استعمال کر رہے ہیں کیوں کہ کئی اسکولوں میں لائبریریز موجود نہیں۔بس کو لائبریری میں تبدیل کرنے والی غیرمنافع بخش تنظیم چارمغز کے نائب سربراہ احمد فہیم برکاتی کہتے ہیں کہ اگست کے وسط میں ‘طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہم نے تقریباً تمام اسپانسر کھو دیے’ ہیں۔

ان کے بقول طالبان کی وزارتِ تعلیم نے کچھ ہفتوں قبل موبائل لائبریریز کی اجازت دی تھی۔ البتہ یہ کچھ دن قبل ہوا ہے کہ وزارتِ ٹرانسپورٹ سے معاہدہ طے پایا ہے جو ان بسوں کی مالک ہے۔طلبہ کی طرح لائبریرین رمزیہ عابدی خیل بھی موبائل لائبریری کے دوبارہ سڑک پر آنے پر خوش ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ”یہ ایک خوب صورت احساس ہے۔ فی الحال اسکول بھی بند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس گلی محلوں کے بچے ہیں اور مجھے ان کے لیے کام کرنا پسند ہے کیوں کہ ان کے پاس اسکول جانے کا موقع نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ ایک طریقہ ہے جہاں وہ ان کے لیے خدمات انجام دے سکتی ہیں۔رمزیہ نے بتایا کہ ان کے پاس اسلامی کتابیں، انگریزی اور دری میں کہانیوں کی کتابیں، پینٹنگ اور مختلف گیمز کی کتابیں موجود ہیں۔چارمغز کے نائب صدر برکاتی کہتے ہیں ان کی تنظیم کے پاس اتنے فنڈز ہیں کہ وہ ایک ماہ یا اس سے زائد عرصے تک اس موبائل لائبریری کو سڑک پر رکھ سکیں۔انہوں نے کہا کہ وہ آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے اور عالمی سطح پر فنڈز اکھٹا کر رہے ہیں اور انہیں امید ہے کہ ان کے پاس کافی اسپانسرز اور ڈونرز ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *