تہران:(اے یو ایس ) ایران میں نامعلوم حملہ آوروں نے ایک سخت گیر قدامت پسند رکن پارلیمان کے دفترکونذرآتش کردیا ہے۔اس رکن پارلیمان نے 2019 میں حکومت مخالف مظاہروں کے بارے میں حال ہی میں ایک سخت بیان جاری کیا ہے۔اس کے خلاف بیرون ملک مقیم نظام مخالف ایرانیوں نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ایران کے خبررساں ادارے فارس نے اطلاع دی ہے کہ جنوبی تہران میں واقع حلقہ رباط کریم
سے منتخب نمائندے حجة لاسلام حسن نوروزی کے دفترکو نامعلوم افراد نے جمعہ کی شب آگ لگا دی تھی۔
حجة الاسلام درمیانے درجے کے شیعہ مولوی خیال کیے جاتے ہیں۔یادرہے کہ نومبر2019 میں ایران بھرمیں
ایندھن کی قیمتوں میں حیرت انگیزاضافے کے خلاف مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے تھے اور انھوں نے کئی روز حکومت مخالف سخت احتجاج کیا تھا۔گذشتہ ایک عشرے میں ایران میں عوامی اختلاف رائے کی بنا پریہ سب سے بڑی احتجاجی تحریک قرار دی گئی تھی۔ایرانی حکومت نے ان احتجاجی مظاہروں پر قابوپانے کے لیے انٹرنیٹ کامکمل بلیک آؤٹ کیا تھا جبکہ سیکورٹی فورسز کی مداخلت سے پہلے مظاہرین نے بعض پٹرول پمپوں کونذرآتش کردیاتھا،تھانوں پر حملے کیے تھے اور دکانوں کو لوٹ لیا تھا۔ایرانی حکام نے ان مظاہروں میں 230 ہلاکتوں کا اعتراف کیا تھالیکن اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والے ماہرین نے بتایا تھاکہ اس بدامنی میں کم سے کم 400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حسن نوروزی نے ان مظاہروں کے حوالے سے گذشتہ ہفتے کے روزشائع شدہ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں ان لوگوں میں سے ایک تھا جنھوں نے مظاہرین پر گولیاں چلائی تھیں۔ ہم نے گولیاں ماری تھیں۔آج کس میں جرآت ہے جو ہمارا ٹرائل کرے؟ انھوں نے یہ تبصرہ لندن میں ایک ”مقدمے“ کی علامتی چار روزہ سماعت کے جواب میں کیا تھا۔رواں ماہ لندن میں بیرون ملک مقیم ایرانی حکومت مخالف کارکنوں نے ایک احتجاج ریلی کے دوران میں یہ علامتی ٹرائل منعقد کیا تھا۔ایران میں بھی حسن نوروزی کے اشتعال انگیز بیان پر کڑی تنقید کی گئی ہے اور ان کے ناقدین میں انتہائی قدامت پسند ذرائع ابلاغ بھی شامل ہیں۔ایرانی روزنامہ جوان نے لکھا کہ نوروزی کا کہنا ہے کہ ان کے انٹرویوکو مسخ کرکے شائع کیاگیا ہے ،اس کے باوجودانھوں نے یہ تبصرہ کرنے کا اعتراف کیا ہے جبکہ فارس نیوز ایجنسی نے ان کے تبصروں کو”عجیب اورناقابل یقین“ قراردیا ہے۔