Russia-Ukraine war: 34 civilians killed in Kharkiv, no water in Mariupolتصویر سوشل میڈیا

جنیوا :(اے یو ایس)باوجود اس کے کہ روس دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ الگ تھلگ پڑتا جا رہا ہے روسی فوج کی جارحیت جاری ہے اور اس نے فوجی نوعیت سے اہم مرکز خیرسون پرقبضہ کرنے کے بعد یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف کے رہائشی علاقے پر زبردست بمباری کی جس میں کم از کم34افراد ہلاک ہو گئے ۔خارکیف یوکرین کے شمال مشرق میں واقع ہے اور یہ ملک کا دوسرا بڑا شہرہے۔گذشتہ ہفتے روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے یہ شہر ایک بڑا میدان جنگ بن چکاہے۔خارکیف کی علاقائی انتظامیہ کے سربراہ اولیگ سنیگوبوف نے بتایا کہ روسی فوج شہرکے رہائشی علاقوں پر توپ خانے سے گولہ باری کررہی ہے جبکہ یہاں یوکرینی فوج کا کوئی ٹھکانا یا تزویراتی بنیادی ڈھانچا نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ حملے دن میں اس وقت کیے جارہے ہیں جب لوگ دواخانے، اشیائے خورونوش یا پینے کے پانی کے لیے باہر نکل رہے ہیں۔یہ ایک جرم ہے ۔ان کے فراہم کردہ اعدادوشمار کی آزادانہ طور پر تصدیق فوری ممکن نہیں تھی۔اس سے قبل وزارت داخلہ کے مشیرانتون ہیراش چینکو نے کہا تھا کہ پیر کے روز خارکیف پرروس کے راکٹ حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

روس یوکرین میں اپنی فوجی کارروائی کو ایک ”خصوصی آپریشن“قراردیتا ہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ علاقے پر قابض ہونے کے لیے نہیں بلکہ جنوب میں واقع پڑوسی ملک کی فوجی صلاحیتوں کو تباہ کرنے اور خطرناک قوم پرستوں کو گرفت میں لانے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔اتوار کے روز یوکرین کی وزارت صحت نے بتایا تھا کہ روس کے حملے کے آغاز سے اب تک 14 بچوں سمیت 372 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر نے پیر کو اطلاع دی ہے کہ پانچ روز قبل روس کے حملے کے بعد یوکرین میں سات بچوں سمیت 102 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔انھوں نے خبردارکیا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سالانہ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے میشیل باشلیٹ نے بتایا کہ گذشتہ جمعرات کو روس کے مکمل حملے کے آغاز کے بعد سے ان کے دفتر نے یوکرین میں 406 شہریوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کی تعداد ریکارڈ کی ہے۔ان میں 102 ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔انھوں نے خبردار کہ ان میں سے زیادہ تر شہری دھماکا خیز ہتھیاروں سے ہلاک ہوئے ہیں۔ان میں بھاری توپ خانے اورکثیرلانچ راکٹ سسٹم سے گولہ باری اور فضائی حملے شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ روس کے حملے کے بعد یوکرین میں شہری مختلف مسائل اور مصائب کا شکار ہوگئے ہیں۔لاکھوں شہری بشمول کمزور اور بوڑھے افراد دھماکوں سے بچنے کے لیے مختلف قسم کی محفوظ بم پروف پناہ گاہوں ،زیرزمین اسٹیشنوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔میشیل باشلیٹ نے نشاندہی کی ہے کہ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی پہلے ہی ملک سے راہ فراراختیار کرنے والے تین لاکھ 68 ہزار افراد کو پناہ گزینوں کے طور پر شمارکرچکی ہے جبکہ یوکرین کے اندر مزید بہت سے افراد بے گھرہو چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ”دنیا بھرکے افراد کی جانب سے امن اور انسانی حقوق کے مطالبات ہمیں متنبہ کرتے ہیں کہ ہمارا مستقبل ایسی دنیا نہیں ہونا چاہیے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی مشترکہ متفقہ ذمہ داریوں اور انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے سے بے نیاز ہوچکی ہو“۔باشلیٹ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے مرکزی سالانہ اجلاس کے آغاز پران خیالات کا اظہار کیا ہے۔یہ اجلاس اسی اختتام ہفتہ پر یوکرین تنازع پر فوری بحث کے لیے رائے شماری سے شروع ہوا تھا۔یوکرین نے اس بحث کی درخواست کی تھی۔ توقع ہےکہ وہایک قرارداد پیش کرے گا جس میں ملک میں روس کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے گا۔روس نے یوکرین کی بحث کی درخواست مسترد کردی تھی اور مطالبہ کیاتھا کہ اس معاملے پر رائے شماری کرائی جائے لیکن کونسل کے 47 ارکان کی بڑی اکثریت نے کیف کی درخواست کی حمایت کی ہے۔جنیوا میں یوکرین کی سفیر یوہنیافلیپنکو نے روس کےاقدامات کو وسیع ترعالمی برادری پر حملہ قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ نہ صرف یوکرین پرحملہ تھا بلکہ یہ اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک، خودعالمی ادارے اور ان اصولوں پر حملہ تھا جن کے دفاع کے لیے یہ تنظیم بنائی گئی تھی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *