کابل: اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے اب افغانستان میں صحافیوں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے کہا کہ اگست 2021 سے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد سے اب تک 200 سے زائد صحافیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا چکی ہے۔ مشن کی رپورٹوں کے مطابق، میڈیا اہلکاروں کے حق میں حکمت عملیوں کا اشتراک کرنے کے بجائے، طالبان نے ایک بار پھر ملک کے میڈیا اداروں کو پسماندہ کر دیا ہے۔ خامہ پریس نے طالبان کے حوالے سے بتایا کہ طالبان میڈیا کے لیے ایک مناسب رہنما خطوط تیار کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
صوبہ بلخ میں ایک اجلاس کے بعد محکمہ اطلاعات و ثقافت کے ایگزیکٹو محمد یونس راشد نے کہا کہ پابندیاں ابھی تک جاری رہیں گی۔راشد کے تبصرے شمالی مزار شریف میں میڈیا اور طالبان کی نگراں حکومت کے درمیان حالیہ ملاقات کے بعد سامنے آئے۔ اس میں صحافیوں کی آزادی کا روڈ میپ تیار کرنے کے بجائے میڈیا کے اداروں پر مزید پابندیاں عائدجاری رکھے۔ بلخ میں ایک نجی میڈیا آو¿ٹ لیٹ کے سربراہ، عبدال بشیر عابد نے کہاہم موجودہ حکومت میں میڈیا پر کنٹرول محسوس کر رہے ہیں۔
اجلاس میں بلیو پرنٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔خامہ پریس کے ایک مقامی صحافی سید محمد یزدان نے کہا کہ حکومت کو ایسی پالیسی متعارف کرانی چاہیے جو دونوں کے درمیان پل کا کام کر سکے۔انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے افغانستان میں صحافیوں کے خلاف ہونے والی خلاف ورزیوں کی مذمت کی۔ دوسری جانب ملک میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے بھی اپنی نومبر کی رپورٹ میں کم از کم 200 صحافیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کہی۔اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے کہا کہ اگست 2021 سے افغانستان میں 200 سے زائد صحافیوں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورتحال دیکھائی گئی ہے۔ اس میں ریکارڈ تعداد میں من مانی گرفتاریاں، بدسلوکی، دھمکیاں اور ڈرانا شامل ہیں۔ یوناما نے ٹویٹ کیا، افغانستان میں میڈیا بحران کا شکار ہے ۔
تصویر سوشل میڈیا 