انقرہ(اے یو ایس)ترکیہ میں رواں برس ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن کی چھ جماعتوں نے مل کر الیکشن لڑنے اور کامیابی کی صورت میں صدر رجب طیب ایردوان کے دور میں کی گئی آئینی ترامیم ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ترکیہ میں رواں برس 14 مئی کو پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات میں حزبِ اختلاف کی چھ جماعتوں نے مل کر صدر طیب ایردوان کے مقابلے میں مشترکہ امیدوار میدان میں اتارنے کے فیصلہ کیا ہے۔رواں برس ہونے والے انتخابات کو ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ جمعے کو ان انتخابات کے سلسلے میں اپوزیشن کی چھ جماعتوں نے اپنے مشترکہ الیکشن پروگرام کا اعلان کیا ہے۔حزب اختلاف کی ان جماعتوں نے اپنے پروگرام میں دو دہائیوں تک جاری رہنے والے صدر ایردوان کے دورِ اقتدار میں اپنے اختیارات کے اضافے کے لیے کیے گئے اقدامات کو واپس کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ان جماعتوں نے صدارت کی مدت سات برس تک محدود کرنے اور زیادہ با اختیار وزیرِ اعظم کو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ بنانے سے متعلق اصلاحات تجویز کی ہیں۔طیب ایردوان پہلی مرتبہ 2003 میں ملک کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تھے۔
بعدازں 2014 میں جب ایردوان نے صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو اس وقت تک صدارت کے عہدے کی حیثیت اعزازی تھی۔اپوزیشن جماعتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملکی نظام کو دوبارہ اسی حالت میں واپس لائیں گے جو سلطنتِ عثمانیہ کے خامے کے بعد قائم ہوا تھا۔ترکیہ میں آئین تبدیل کرنے کے لیے 600 رکنی پارلیمنٹ میں سے 400 افراد کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔آئین میں ترمیم کے لیے استصوابِ رائے یا ریفرنڈم بھی کرایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے اپوزیشن کو ایوان میں کم از کم 360 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہوگا۔اپوزیشن نے اپنے انتخابی پروگرام میں آئین کو ازِ سر نو تشکیل دینے اور پارلیمانی ووٹ کی اہمیت میں اضافے کے لیے قانون سازی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔اپنے اقتدار کی دوسری دہائی میں پارلیمنٹ پر صدر ایردوان کی گرفت کچھ ڈھیلی ہوئی ہے اور اب ان کا زیادہ انحصار اپنی انتہائی دائیں بازو کی جماعت پر ہےلیکن گزشتہ برسوں میں ان کی جماعت کی عوامی حمایت میں بھی کمی آئی ہوئی ہے۔ترکیہ میں رائے عامہ کے جائزے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں کانٹے کے مقابلے کا اشارہ دے رہے ہیں۔اپوزیشن جماعتوں نے اپنے پروگرام میں آئین میں ’فوری‘ ترمیم کا وعدہ کیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ ترمیم اسمبلی کی آزادی اور اس کے اختیارات پر لگی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے۔
حزبِ اختلاف کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ وہ سوچنے، رائے اور اظہار کی آزادیوں کو مستحکم کریں گے۔صدر ایردوان نے 2016 میں اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے بعد کئی ایسی آزادیوں پر بھی قدغنیں لگا دی تھیں جو ان کے گزشتہ ادوار میں ترکیہ کے شہریوں کو حاصل تھیں۔مبصرین کا اندازہ ہے کہ اس وقت ترکیہ کا 90 فی صد میڈیا حکومت یا اس کے کاروباری اتحادیوں کے کنٹرول میں ہے۔ہزاروں سیاسی کارکن اس وقت دہشت گردی کے الزام میں ترکیہ کے مختلف جیلوں میں قید ہیں جن میں اکثریت کردوں کی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان میں سے زیادہ تر افراد کو سیاسی اختلاف کی وجہ سے قید کیا گیا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کے رہنماو¿ں نے ایک پرہجوم تقریب میں اپنے پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ وہ ایردوان کے دور میں ترکیہ کو قدامت پسند مذہبی ملک بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ ان کے نزدیک صدر ایردوان کی پالیسیوں کی وجہ سے ترکیہ مغرب سے دور ہوا ہے۔اس تقریب میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن اور سرکاری میڈیا سمیت ترکیہ کے روایتی اداروں کی طاقت بحال کرنے کے اعلانات پر سب سے زیادہ پر جوش حمایت کا اظہار کیا گیا۔
اپوزیشن نے اپنے پروگرام میں وعدہ کیا ہے کہ ترک قومی نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی اور ریاستی خبر رساں ادارے انادولو کو ’آزادی اور غیر جانب داری کے اصولوں‘ کا پابند بنایا جائے گا۔اپوزیشن نے امریکہ کے ساتھ ’باہمی اعتماد‘ کا رشتہ بحال کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے ترکیہ کے ہدف کو پورا کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔اپوزیشن کے مطابق صدر ایردوان کے دور میں یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کے لیے ترکیہ کی کوششیں تعطل کا شکار ہوگئی ہیں۔اپوزیشن نے اپنی پالیسی میں یوکرین پر روس کے حملے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔پروگرام میں کہا گیا ہے کہ روس کے ساتھ برابری اور توازن کے ساتھ تعلقات مستحکم کیے جائیں گے جس میں اداروں کی سطح پر تعمیری مکالمے کا آغاز کیا جائے گا۔ایردوان نے مغربی ممالک کی جانب سے روس پر عائد ہونے والی پابندیوں میں شریک ہونے سے انکار کردیا تھا۔ان کے اس فیصلے کے بعد روس کو ترکیہ کے ذریعے ہی مغربی مصنوعات تک رسائی حاصل ہے۔اس فیصلے کی وجہ سے دونوں ممالک کی دو طرفہ تجارت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور اسی کے باعث ایردوان کے واشنگٹں اور یورپی یونین سے تعلقات میں کشیدگی بڑھی ہے۔