واشنگٹن(اے یو ایس ) امریکہ کے ایک اعلی دفاعی انٹیلی جنس عہدیدار کے اندازوں کے مطابق امریکہ کے ساتھ تعلقات پر چین کی بڑھتی ہوئی مایوسی نے بیجنگ کو ایک ایسی جنگ کی تیاری پر آمادہ کر دیا ہے، جسے وہ لڑنا نہیں چاہے گاڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی یا ڈی آئی اے کے چائنا مشن گروپ کے سربراہ نے منگل کے روز خبردار کیا کہ امکان یہ ہے کہ امریکہ اور چین کشیدگی کے بعد بڑھتے ہوئے تصادم کے دور میں داخل ہو رہے ہیں اور بیجنگ اپنی حیثیت کو کئی طریقوں سے منوانے کے لیے ہمیشہ سے زیادہ خواہش مند نظر آتا ہے۔امریکہ کے صدر جوبائیڈن کی سین ڈیاگو میں آسٹریلیا کے وزیر اعظم البانیز اور برطانیہ کے وزیر اعظم سونگ سے ملاقات۔ڈی آئی اے کے ڈگ ویڈ نے غیر جماعتی انٹیلی جنس اینڈ نیشنل سیکیورٹی الائنس یا آئی این ایس اے کے زیر اہتمام ہونے والے ایک ویب نار میں بتایا کہ وہ سفارتی معاملات سے لے کرمعاشی امور تک ہر شعبے میں خود کو ا?گے لانے کی کوشش کرے گا۔
ویڈ نے مزید کہا کہ صدر شی جن پنگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے دوسرے اعلی عہدیدار سمجھتے ہیں کہ امریکہ ، چین کو ایک عالمی لیڈر کی حیثیت سے اپنا صحیح مقام حاصل کرنے سے روک رہا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ جنوبی بحیرہ چین میں اور تائیوان کی جانب بیجنگ کا رویہ اس حقیقت کو ظاہر کر رہا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین، تائیوان کے مسئلے پر لڑائی شروع نہیں کرنا چاہتا، لیکن اگر انہیں یہ جنگ لڑنا پڑی تو وہ لڑیں گے۔ انہوں نے اس کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے۔
ویڈ نے اپنے ان خیالات کا اظہار اس کے چند ہی روز بعد کیا ہے جب کہ امریکہ کے اعلی ترین انٹیلی جنس عہدیدار نے امریکی قانون سازوں کو عالمی اسٹیج پر چینی حکومت کے عزائم سے ہوشیار رہنے کے لیے کہا تھا۔سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز سے جب سوال کیا گیا کہ شی اور دوسرے اعل?ی چینی عہدیدار، تائیوان کے اپنے ساتھ انضمام کو یقینی بنانے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ “میں موجودہ چینی قیادت کے عزائم کو کبھی بھی کم نہیں سمجھوں گا”۔ایک روز قبل ہی نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائر یکٹر ایورل ہینز نے کہا تھا کہ شی اور دوسرے چینی لیڈر اس نتیجے پر پہنچے کے باوجود تصادم کا خطرہ مول لینا چاہیں گے کہ کشیدگیوں سے بچ کر اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں استحکام برقرار رکھ کر، بیجنگ کو زیادہ فائدہ ہو گا۔