Al-Qaida and Islamic Emirate relationship 'remains close’: UNتصویر سوشل میڈیا

نیو یارک:اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان اور القاعدہ کے تعلاات جوں کے توں ہیں اور ان میں ذرا بھی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اور آج بھی اس کے اسلامی امارت سے قریبی تعلقات ہیں۔القاعدہ اشرف غنی حکومت کے گرنے اور طالبان کے بر سر اقتدار آنے کی خشیاں منارہا ہے اور اس نے ملا ہبت اللہ اخوند زادے سے اظہار وفاداری کے عہد کی تجدید کی ہے۔امارات اسلامیہ نے اس تازہ دعوے پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس کے ترجمان نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر کیا ۔ البتہ وہ قبل ازیں افغانستان میں کسی بھی دہشت گرد گروپ کی موجودگی کی تردید کر چکی ہے۔

افغانستان میں القاعدہ اور داعش جیسے گروپوں کی سرگرمیوں اور موجودگی پر نظر ڈاالنے والی اس 27 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں اس میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان اور القاعدہ کے درمیان اب بھی قریبی تعلقات ہیں۔ القاعدہ نے اپنی کامیابی کا جشن منایا اور لقاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے امارت اسلامیہ کے رہنما سے اپنی بیعت کی باقاعدہ تجدید کی ہے۔۔ رکن ممالک کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ القاعدہ اپنے زیر اثر مقامات پر واقع محفوظ ٹھکانوں پر موجود ہے اور اس کو پہلے سے زیادہ چھوٹ اور آزادی ملی ہوئی ہےیہ دستاویزات ہیں کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے اگست کے بعد مزید پیغامات جاری کیے ہیں، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیٹ ورک زیادہ فعال ہے۔”رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے افغانستان میں 180 سے 400 کے درمیان جنگجو ہیں جن کا تعلق ہندوستان ، بنگلہ دیش، میانمار اور پاکستان سے ہے اور وہ غزنی، ہلمند، قندھار، نمروز، زابل اور پکتیکا صوبوں میں سرگرم ہیں۔

دوسری جانب ایک سیاسی تجزیہ کار طارق فرہادی کا کہنا ہے کہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد القاعدہ ایک بوسیدہ اور ناتواں تنظیم بن گئی ہے اور حقیقت میں دنیا کے لیے کوئی خاص خطرہ نہیں ہے۔ الظواہری کے بعد جو کہ ایک بوڑھا آدمی ہے، القاعدہ میں کوئی نوجوان رہنما نہیں ہے ۔دریں اثنا، افغانستان کی قومی یکجہتی تحریک کے رہنما، اسحاق گیلانی نے کہا ہے کہ امارت اسلامیہ کے لیے بہانے موجود ہیں۔ امارت اسلامیہ کو اس ضمن میںاپنا موقف ظاہر کرنا چاہیے کہ کیا اس کا آج بھی القاعدہ کے ساتھ تعلق ہے کہ نہیں؟” اگر اس کے پاس ہے تو اسے کہنا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اسے واضح طور پر اس دعوے مسترد کر دینا چاہیے اور جن دہشت گرد گروہوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود ہیں، انہیں افغانستان سے نکال دینا چاہیے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *