دوبئی:شامی مشاہدگاہ برائے انسانی حقوق کے مطابق شام کے مشرق میں ایک فوجی بس پر حملے میں 23 سرکاری فوجی ہلاک اور 10 سے زیادہ زخمی ہو گئے اس جنگی نگرانی گروپ نے اس واردات کا دولت اسلامیہ فی العراق و الشام (داعش) کو ذمہ دار ٹھہرایا جو ان علاقوں میں جن پر پہلے اس کی حکمرانی تھی خفیہ سیلوں سے کام لیتا ہے۔
داعش نے یہ حملہ وسیع صحرائی صوبے دیر الزور کے المیادین قصبے کے، جو شامی فوجیوں کے درمیان بٹا ہواہے، قریب کیا۔ یہ جن فوجیوں میں تقسیم ہے ان میں سے ایک کو ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے اور دوسر کرد زیر قیادت جنگجوؤں کا ہے جنہیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ یہ داعش کا اس سال اب تک کا سب سے زیدہ ہلاکت خیز حملہ ہے۔ یہ گروپ، جس نے 2013 سے شام اور ہمسایہ ملک عراق کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، 2019 میں مشرقی شام میں اپنا آخری ٹھکانے سے محروم ہوجانے کے بعد سے روپوش ہو گیا تھا اور زیر زمین سرگرم تھا۔
شام کے سرکاری میڈیا نے اس واقعے کی کوئی فوری رپورٹ نہیں دی اور نہ ہی فوری طور پر اس کی ذمہ داری قبول کی گئی۔ سیرین آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمان کے مطابق شام میں داعش کے خفیہ سیل خاص طور پر وسیع صحرائی علاقوں میں، جن پر کبھی ان کا کنٹرول تھا، حالیہ مہینوں میں زیادہ دلیر اور خونی ہو گئے ہیں۔دولت اسلامیہ نے پہلی بار اپنے سابق سربراہ ابو حسین الحسینی القریشی کی موت کی، جس کے بارے میں ترکی کہتا ہے کہ اس نے اسے اپریل میں مارا تھا، تصدیق کرتے ہوئے اس ماہ ابو حفصہ الہاشمی القریشی کو اپنا نیا قائد مقرر کیا ہے۔