کابل: نمروز میں کام اور سماجی امور کے سربراہ محمد عمر زبیر کے مطابق روزانہ درجنوں افغان بچے براستہ نمروز صوبہ ایران سے افغانستان بھیجے جارہے ہیں۔اگست 2021سے جب سے کہ طالبان بر سر اقتدار آئے ہیں ایران سے کمسن افغان بچوں کی ملک بدری میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔لا تعداد افغان خاندان طالبان کی جانب سے موت کے گھاٹ اتار دیے جانے اور مقدمہ چلائے جانے کی دھمکیوں کے بعد خوف سے پڑوسی ممالک ایران اور پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔ تاہم ماپرین کے مطابق ان افغان بچوں کی غیر قانونی ہجرت کے پس پشت افغانستان میں بڑھتی بے روزگاری اور غربت کے عوامل کارفرما ہیں۔ محمد عمر زبیرکے مطابق ایران بدر کیے جانے والے ان بچوں میں سے زیادہ تر کے پاس اپنے صوبوں میں اپنے خاندانوں اور رشتہ داروں سے ملنے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور وہ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
زبیر نے مزید کہا کہ سرحد پر بچوں کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا ہے۔ جس سے سرحد پر ان بچوں کا ہجوم بڑھ گیا ہے۔ اب ادارے کام نہیں کر رہے اور ہم خود ان بچوں کو ان کے آبائی صوبوں میں بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔14 سالہ شبیر احمد کو جس وقت وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ غیر قانونی طور پر ایران جانے کا منصوبہ بنا رہا تھا ایران کے سلامتی دستوں نے گرفتار کر کے نمروز واپس بھیج دیا۔ وہ اب صوبہ نمروز میں سفر کے اخراجات کے بغیر غربت کی زندگی گزار رہا ہے۔
شبیر احمد نے طلوع نیوز کو بتایا کہ کیمپ میں بے شمار لوگ تھے۔ وہاں ہر قسم کے لوگ ہیں، نابالغ، بڑے، بھوکے، بچوں کے ساتھ، خاندانوں کے ساتھ، اور ان کے پاس کھانے کو ایک دنہ تک نہیں تھا۔ دوسری طرف ان میں سے کچھ بچے جن کے خاندان ایران میں رہتے ہیں، چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت ان کے مسائل حل کرے۔ غور کے ایک رہائشی محب اللہ نے کہا کہ ہمیں گرفتار کر کے کیمپ بھیج دیا گیا اور ہمارے پاس ایک دھیلہ نہیں تھا۔ ہم ایک ہفتے سے بھوکے پیاسے ہیں۔بدغیس کے رہائشی میر احمد کہتے ہیں کہ وہ ہمیں بندر عباس سے لے گئے اور کیمپ میں پہنچا دیا۔ اب ہمارے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ ہم کار کا کرایہ دے سکیں۔ہم نہیں جانتے کہ ہم اپنے گھر کیسے پہنچیں گے۔تاہم ماہرین کے مطابق ملک میں غربت اور بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کمسن بچوں نے غیر قانونی نقل وطن شروع کر دی ہے۔