After US withdrawal from Afghanistan, Pakistan is targeted by TTPتصویر سوشل میڈیا

اسلام آباد(اے یو ایس )کلعدم تحریک طالبان نے افغانستان میں امریکی فوجی کی انخلاءکے بعد اپنی تمام سرسرگرمیاں پاکستان کے خلاف شروع کی جس کی وجہ سے قبائلی اور خیبرپختونخواہ میں اس کے دہشت گرد آئے دن دہشت گرد سیکورٹی فورسیز اور دوسرے سرکاری املاک پر حملے کرتے رہے ہیں اور پچھلے کئی مہینوں میں ان میں شدت آگئی ہے یہا ں تک کہ اس سال 300سے زیادہ حملے ہوئے۔

طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو کہ افغان سرحد سے منسل قبائلی علاقہ جات میں اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر دہشت گرد تنظیمیں بھی ٹی ٹی پی کی آڑ میں افغانستان میں ‘آپریٹ’ کر رہی ہیں۔اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل مانٹینرٹگ کمیٹی ( یواین ایس سی ) نے رپورٹ میں کہا کہ افغان سرحد سے منسک علاقہ جات میں ٹی ٹی پی منظم کرنے کی کوشش کررہا ہے اور دسری تنظیمیں بھی اس کی آڑ میں افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملے کررہے ہیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیزسے منسلک دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نظیر احمد کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار حاصل کرنے کے پہلے سال پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں 57 فی صد اور دوسرے سال 79 فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔رواں ماہ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 12 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر پاکستان کی فوج کی اعلیٰ قیادت نے بھی افغانستان میں ٹی ٹی پی کی مبینہ پناہ گاہوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں متنبہ کیا تھا کہ اس طرح کے حملے ناقابلِ برداشت ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے مو?ثر جوابی کارروائی کی جائے گی۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان حکومت اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے اندر کارروائیوں کےلیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔

کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ شیئر کیے گئے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کالعدم تنظیم نے ملک بھر میں رواں برس ابتدائی چھ ماہ کے دوران 300 سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔مبصرین کے مطابق 2014 میں فوج کی جاب سے کیے گئے آپریشن ‘ضربِ عضب’ کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کا شیرازہ بکھر گیا تھا تاہم بعد میں کالعدم تنظیم کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی سربراہی میں تنظیم دوبارہ منظم ہوگئی تھی۔پاکستان میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں پر خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی موجودگی کے وقت ٹی ٹی پی افغان طالبان کے شانہ بشانہ لڑ رہی تھی جس کی وجہ سے ان کی توجہ بٹی ہوئی تھی۔ تاہم اب غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ٹی ٹی پی کی تمام تر توجہ پاکستان پر مرکوز ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو جھتوں کی صورت میں حملہ آور ہوتے ہیں جن سے نمٹنا سیکیورٹی فورسز کے لیے بڑا چیلنج ہے۔اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل مانیٹرنگ کمیٹی کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو سرحدسے ملحقہ علاقوں سمیت شہری علاقوں میں سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنا رہے ہیں۔صرف گزشتہ ہفتے کالعدم تنظیم کے جنگجوو¿ں نے پشاور کے گردونواح میں متعدد مقامات پر پولیس اہلکاروں کو نشانہ بناتے ہوئے بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔سید اختر علی شاہ کے مطابق پولیس چوں کہ کسی کینٹونمنٹ میں نہیں ہوتی۔اس لیے وہ سافٹ ٹارگٹ کے زمرے میں آتی ہے۔مبصرین کے مطابق پاکستان میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں کے تناظر میں شدید احتجاج کے پیش نظر طالبان حکومت نے سرحدی علاقوں سے ٹی ٹی پی کے مخصوص جھتوں کو وہاں سے دوسری جگہوں پر منتقل کر دیا تھا۔ جس کا ذکر اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ میں بھی موجود ہے۔شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید کہتے ہیں کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملے کالعدم تنظیم کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی محسود کی ان پالیسیوں کا تسلسل ہے جو انہوں نے جولائی 2018 میں تنظیم کے امیر بننے کے فوری بعد مرتب کی تھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *