پیرس:( اے یوایس) فرانس نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔فرانس نے صدر ایمانوئل میکرون نے حالیہ دنوں میں پیغمبرِ اسلام کے خاکے شائع کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہب اسلام پوری دنیا میں ’بحران کا مذہب‘ بن گیا ہے اور ا±ن کی حکومت دسمبر میں مذہب اور ریاست کو الگ کرنے والے 1905 کے قوانین کو مزید مضبوط کرے گی۔اسی تناظر میں دیے گئے صدر میکخواں کے حالیہ بیانات کے بعد بہت سے مسلمان ممالک خاص کر مشرقِ وسطی میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم نے زور پکڑا ہے۔
فرانس کی وزات خارجہ کا کہنا ہے کہ فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ’بے بنیاد‘ اعلانات کو ’شدت پسند اقلیت کی جانب سے ہوا دی جا رہی ہے۔‘حالیہ دنوں میں چند ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا سائٹس پر پوسٹ کی گئی ہیں جن میں کویت، ا±ردن اور قطر سمیت دیگر ممالک کے کاروباری حضرات کو اپنی دکانوں سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹاتے اور ان مصنوعات کو دوبارہ فروخت نہ کرنے کا عزم کرتے دکھایا گیا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ 48 گھنٹوں سے فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا ٹرینڈ ٹاپ پر ہے۔اس کے علاوہ فرانس کے صدر کے بیانات کے بعد لیبیا، شام اور غزہ کی پٹی پر احتجاج بھی کیا گیا ہے۔یہ شدید ردِ عمل دراصل صدر میکرون کی جانب سے اسلام سے متعلق بیانات کے بعد سامنے آیا ہے جو انھوں نے ایک اسکول میں طلبہ کو پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکے دکھانے پر ایک فرانسیسی استاد کے قتل کے بعد دیے تھے۔صدر میکرون نے کہا تھا کہ سیمیول پیٹی نامی استاد ’اس لیے قتل کیے گئے کیونکہ اسلام پسند افراد کو ہمارے مستقبل پر قبضہ کرنا ہے‘ لیکن فرانس ’اپنے کارٹون (پیغمبرِ اسلام کے خاکے) نہیں چھوڑے گا۔‘
فرانس میں ریاستی سیکولرازم ملک کی قومی شناخت میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے جبکہ ریاست کا کہنا ہے کہ کسی ایک برادری کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اظہارِ آزادی رائے پر قدغن لگانا ملکی اتحاد کو کمزور کر سکتا ہے۔اتوار کے روز صدر میکرون نے ایک ٹویٹ میں فرانسیسی قدروں کے دفاع میں دو قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’ہم کبھی بھی ہار نہیں مانیں گے۔‘ترکی اور پاکستان میں سیاسی رہنماو¿ں کی جانب سے صدر میکرون پر کڑی تنقید کی گئی ہے اور الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ’مذہبی آزادی‘ کی عزت نہیں کرتے اور ان کے باعث فرانس کے لاکھوں مسلمان پسماندگی کا شکار ہو گئے ہیں۔اس سے قبل ترک صدر طیب اردوغان اس معاملے پر میکرون کو ’دماغی علاج‘ کروانے کا مشورہ دے چکے ہیں۔اردوغان کے اسی بیان کے بعد فرانس نے سنیچر کو مشاورت کی غرض سے ترکی سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
یاد رہے کہ پیرس میں ایک استاد نے اپنے طلبہ کو پیغمبرِ اسلام س توہین آمیز خاکے دکھائے تھے جس کے بعد انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔اتوار تک اردن، قطر اور کویت میں کچھ سپر مارکیٹس سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹا دیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر فرانس میں بننے والی بالوں اور خوبصورتی سے متعلق مصنوعات گذشتہ روز وہاں موجود نہیں تھیں۔کویت میں ایک بڑی تجارتی یونین کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔غیرسرکاری یونین آف کنزیومر کوآپریٹو سوسائٹیز کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ احکامات پیغمبرِ اسلام کی ’مسلسل توہین‘ کے بعد دیے ہیں۔فرانس کی وزاتِ خارجہ نے اس حوالے سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’بائیکاٹ کے احکامات بے بنیاد ہیں اور انھیں اور ہمارے ملک کے خلاف کیے جانے والے پروپگنڈوں کو بھی جو ایک شدت پسند اقلیت کی جانب سے پیش کیے جا رہے ہیں، جلد ازجلد روکا جائے ۔‘اس قسم کے اعلانات اور احکامات انٹرنیٹ کے ذریعے بھی پھیلائے جا رہے ہیں۔عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت سعودی عرب میں فرانسیسی سپرمارکیٹ چین کیریفور کے بائیکاٹ سے متعلق ہیش ٹیگ دوسرے نمبر پر ٹرینڈ کرتا رہا۔ دریں اثنا لیبیا، غزہ اور شمالی شام میں فرانس مخالف مظاہروں کا انعقاد بھی ہوا۔ ان تمام ممالک میں ترکی کی حمایت یافتہ ملیشیا بااثر ہیں۔
صدر میکخواں کی جانب سے استاد کے قتل کے بعد فرانسیسی سیکولرازم کا دفاع اور شدت پسند نظریات رکھنے والے مسلمانوں پر تنقید کے بعد مسلم دنیا میں کچھ افراد کو اشتعال آیا ہے۔ترک صدر اردوغان نے اس معاملے پر ایک خطاب کے دوران کہا کہ ’میکرون نامی اس شخص کو اسلام اور مسلمانوں سے پریشانی کیا ہے؟‘جبکہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے فرانسیسی رہنما کو ’اسلام پر کچھ سوچے سمجھے بغیر حملہ کرنے کا الزام عائد کیا۔‘انھوں نے لکھا کہ ’صدر میکرون نے یورپ اور پوری دنیا میں رہنے والے سے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے ہیں اور ان پر حملہ کیا ہے۔‘رواں ماہ استاد کے قتل سے قبل میکرون نے اعلان کیا تھا کہ وہ ’اسلامی علیحدگی پسندی‘ سے نمٹنے کے لیے مزید سخت قوانین لائیں گے۔انھوں نے کہا تھا کہ تقریباً 60 لاکھ افراد ایک مخالف معاشرہ بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں مگر انھیں ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا۔