Houthis: Saudi-Iran deal has no impact on Yemen war, we are not subordinate to Tehranتصویر سوشل میڈیا

صنعاء،(اے یو ایس ) ایران کے ساتھ سعودی عرب کے معاہدے کا یمن جنگ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ حوثی تہران کے “ماتحت” نہیں ہیں ، ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے ترجمان عبدالوہاب المحبشی نے لبنان کے المیادین ٹی وی پر بتایا۔”سعودی عرب کو یہ جان لینا چاہیے کہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات ماتحتوں کے نہیں ہیں۔ یہ اسلامی برادرانہ رشتہ ہے۔ یمن کے مسئلے کا حل تہران اور ریاض کے درمیان نہیں بلکہ صنعا اور ریاض کے درمیان [صرف مذاکرات کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے]۔

دریں اثنا، اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے اتوار کو کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے یمن میں جنگ کے خاتمے اور تنازعے کے سیاسی حل کی راہ ہموار ہوگی۔حوثی ترجمان کا کہنا ہے کہ “اگر سعودی عرب نے مشترکہ دفاعی معاہدے پر دستخط کر کے ایران کے ساتھ فوجی اتحاد بنا بھی لیا، تب بھی یہ اسے ہم سے محفوظ نہیں رکھے گا، جب تک وہ ہمارے خلاف جارحیت جاری رکھے گا۔”سعودی عرب اور ایران نے جمعہ کے روز ایک تاریخی معاہدے کا اعلان کیا جس میں سات سال کی کشیدگی کے بعد، چین کی ثالثی میں سفارتی تعلقات بحال کرنے اور سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا گیا۔یمن 2014 سے ایک میدان جنگ بنا ہوا ہے جہاں دونوں متحارب فریقوں کو ایک طرف ریاض اور دوسری طرف تہران کی حمایت حاصل تھی۔

خلیجی ممالک طویل عرصے سے ایران پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ خطے میں خاص طور پر عراق، لبنان، شام اور یمن میں اپنے شیعہ پراکسی نیٹ ورک کی مالی اور فوجی امداد کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں تشدد کے شعلوں کو ہوا دے رہا ہے۔سعودی عرب نے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کی حمایت کی اور ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے خلاف عسکری طور پر اس کی حمایت کے لیے ایک عرب اتحاد تشکیل دیا۔عرب ممالک اور مغربی دنیا طویل عرصے سے اس دعوے پر قائم ہے کہ ایران حوثی ملیشیا کو ہتھیار فراہم کرتا ہے جو کہ سرحد پار سے حملوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو نشانہ بناتے ہیں۔خطے میں امریکی اور برطانوی بحریہ نے متعدد بار یمن جانے والے بحری جہازوں پر ایرانی ساختہ ہتھیاروں کی بہت بڑی کھیپ کو روکا ہے۔تاہم المحبشی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ایران کے ساتھ معاہدے کے باوجود، ایران سے وابستہ جنگجو گروپوں، جیسے کہ لبنان میں حزب اللہ یا فلسطین میں حماس اور دیگر مزاحمتی تحریکوں، کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا امکان نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *