How the Palestinians will be the first victims of Israel's law reformتصویر سوشل میڈیا

تل ابیب (اے یو ایس ) اسرائیل میں حالیہ سیاسی بحران ملک کے لیے بدترین اقتصادی بحرانوں میں سے ایک کا باعث بنا مگر اس بحران کے اثرات صرف اسرائیل تک محدود نہیں ہوں گے بلکہ اس کا پہلا براہ راست اثر فلسطینیوں پر بھی پڑے گا۔فلسطین نیشنل انیشیٹو کے سیکرٹری جنرل مصطفیٰ البرغوثی نے اسرائیل کے حالیہ بحران کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ترمیم شدہ قانون نافذ ہوجاتا ہے تو فلسطینی سب سے پہلے اسرائیلی حکومت کے حق میں اسرائیلی سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرنے کی قیمت ادا کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ عدالت فلسطینیوں اور اسرائیلی اداروں کی طرف سے بستیوں، مکانات کی مسماری اور جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے حقوق سے متعلق معاملات میں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دائر مقدمات پر غور کر رہی ہے۔

برغوثی نے بدھ کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اسرائیل پر آباد کاروں کا کنٹرول ہے۔ اسرائیل کی پالیسی ہی بستیوں اور آباد کاروں کے قیام کی وجہ ہے، جو اب اسرائیل میں ایک فاشسٹ سیاسی قوت بن چکے ہیں۔ اسرائیلی کنیسٹ میں اس وقت ایسے فاشسٹ اور انتہا پسند صہیونی ارکان کی تعداد پندرہ ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بین گویر اور وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ اسرائیلی سیاست کو کنٹرول کرتے ہیں۔ وہ مغربی کنارے میں آباد کار رہ نماو¿ں میں شامل ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ عدالتی ترامیم سے متعلق مسودہ قانون جسے بنجمن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت نے واپس لینے اور اس پر غور کو عارضی طور پر معطل کرنے سے پہلے منظور کرنے کا ارادہ کیا تھا، نے گذشتہ جنوری کے آغاز سے ہی ایک بحران کو جنم دیا ہے۔یہ متنازع بل شدت پسند وزیر قانون یاریو لیون نے پیش کیا تھا جس کا مقصد عدلیہ کے اختیارات کو کم کرنا خاص طور پر سپریم کورٹ کے اختیارات کومحدود کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترمیم سے اسرائیلی ارکان کنیسٹ کو لا محدود اختیارات دینا تھا۔

یہ قانون پبلک پراسیکیوٹر کے فیصلے سے وزیر اعظم کو برطرفی سے بھی بچاتا ہے۔یہ حکومت کو ججوں کی تقرری کے لیے کمیٹی پر مکمل اختیار بھی دے گا اور سپریم کورٹ کو قوانین کو الٹنے سے محروم کر سکتا ہے۔جہاں تک یہودی بستیوں کا تعلق ہے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت نے بین الاقوامی تشویش کےباوجود مغربی کنارے میں نئی بستیوں کی تعمیر کے لیے آگے بڑھنے کے فیصلے کیے تھے۔واشنگٹن اور عرب اور مغربی دارالحکومتوں میں جاری ہونے والی شدید تنقید کے باوجود گذشتہ فروری میں حکومت نے مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے سیکٹر C میں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری میں تیزی کے ساتھ یہودیوں کے لیے 9,409 مکانات کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *