کراچی:(اےیوایس )پاکستان میں جاری کورونا کی تیسری لہر میں نا صرف وائرس سے متاثر اور ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ملک میں موجود طبی انفراسٹرکچر پر بھی دباو¿ بڑھ رہا ہے۔ اِس سلسلے میں وائرس سے شدید متاثر مریضوں کو دی جانے والے آکسیجن کی کمی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور پاکستان میں کورونا سے نمٹنے کے لیے قائم ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے سربراہ اسد عمر نے گذشتہ ہفتے بتایا تھا کہ اِس وقت ملک میں پیدا ہونے والی آکسیجن کا نوے فیصد استعمال میں آ رہا ہے جبکہ آنے والے دنوں آکسیجن کی فراہمی میں مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر آکسیجن درآمد کی جا سکتی ہے۔اِس صورتحال میں گذشتہ چند روز سے کچھ حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ کراچی میں واقع پاکستان ا سٹیل ملز کے آکسیجن پلانٹ کو فعال بنا کر ملک میں کورونا کے مریضوں کے لیے آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔پاکستان میں انجینیئرز کی فلاح و بہبود کی تنظیم ‘نیشنل انجینیئرز ویلفیئر ایسوسی ایشن’ نے وزیرِ اعظم عمران خان کو ارسال کردہ ایک مکتوب میں پاکستان ا سٹیل ملز کے آکسیجن پلانٹ کی بحالی کے لیے خدمات پیش کی تھیں۔اِس کے بعد ایک چار رکنی حکومتی وفد نے پاکستان ا سٹیل ملز کے غیر فعال آکسیجن یونٹ کا دورہ کیا اور پلانٹ کا جائزہ لیا۔ دورے کا مقصد پلانٹ کی بحالی کے امکانات کا جائزہ لینا اور اِس بارے میں حکمتِ عملی مرتب کرنا تھا۔
نیشنل انجینیئرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی ایک ٹیم نے بھی پلانٹ کا دورہ کیا جس کے بعد جائزہ رپورٹ حکام کو دی جائے گی۔پاکستان ا سٹیل ملز کا یہ آکسیجن پلانٹ2015سے بند پڑا ہے۔ یہاں تیار ہونے والی آکسیجن کو خام لوہے سے سٹیل تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پلانٹ روزانہ 520 ٹن آکسیجن تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔پاکستان اسٹیل ملز کے آکسیجن پلانٹ کے سابق مینجرامتیاز احمد اعوان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘یہ پلانٹ صنعتی مقاصد کے لیے آکسیجن تیار کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جو نوے فیصد آکسیجن گیس تیار کرتا ہے جبکہ میڈیکل گیس تیار کرنے والے پلانٹ لیکویڈ آکسیجن تیار کرتے ہیں۔ تاہم یہاں تیار کی جانے والی آکسیجن کمپریس کر کے ہسپتالوں میں بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔’نیشنل انجینیئرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اور پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیف انجینیئر محسن علی خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ا±ن کے اندازے کے مطابق پلانٹ کی بحالی کے کام میں کم از کم تین سے چار مہینے لگ سکتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ‘دو بڑے چیلنجز یہ ہیں کہ پلانٹ کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے سمندری پانی پہنچانے والی پائپ لائن خراب ہو چکی ہے جبکہ پلانٹ کو چلانے کے لیے بجلی کی بلاتعطل فراہمی بھی موجود نہیں ہے۔’محسن علی خان کے مطابق ‘بحالی کی لاگت کا تخمینہ لگانا فی الحال قبل از وقت ہے لیکن یہ کروڑوں میں ضرور ہوگی۔ میرے خیال میں اِس کام کے لیے پچیس سے تیس کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔’محسن علی خان کے مطابق پلانٹ کی بحالی کے لیے اکثر پرزہ جات مقامی طور پر فراہم کیے جاسکتے ہیں لیکن چند پارٹس بیرونِ ملک سے منگوانے پڑیں گے۔انھوں نے بتایا کہ ‘پلانٹ کے دو میں سے ایک یونٹ کی بیڑی بھی خراب ہے جس کے لیے ایک غیر ملکی ماہر کو بلوانا پڑے گا لیکن زیادہ تر کام مقامی انجینیئرز مکمل کر سکتے ہیں۔’
دوسری جانب کچھ ماہرین کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز کے آکسیجن پلانٹ کو بحال کرنا ایک طویل اور صبر آزما کام ہے جو بظاہر قابلِ عمل نہیں لگتا۔امتیاز احمد اعوان کے مطابق فی الحال اسٹیل ملز کے پاس مقامی طور پر اِتنے وسائل نہیں کہ وہ اِس پلانٹ کو اپنے طور پر بحال کر سکے۔ا±ن کا کہنا تھا کہ ‘یہ پلانٹ فرانس کی ایک کمپنی کا تیار کردہ ہے۔ تمام سپئیر پارٹس اور ماہرین کی مدد ہمیں ا±سی کمپنی سے لینی پڑے گی۔’کچھ حلقوں کی رائے میں پاکستان اسٹیل ملز کے غیر فعال آکسیجن پلانٹ کو بحال کرنے کے مقابلے میں ملک کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں آکسیجن پیدا کرنا ہی واحد قابلِ عمل طریقہ ہے۔ ا±ن کے مطابق ہسپتالوں میں آکسیجن تیار کرنے والے پلانٹس محدود مقدار میں آکسیجن تیار کرتے ہیں لیکن ا±ن کی لاگت بھی بہت کم ہوتی ہے۔چند روز قبل صوبہِ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اِس وقت صوبے کے تین ہسپتالوں میں آکسیجن پیدا کرنے کے پلانٹس کام کر رہے ہیں۔ ا±نھوں نے اعلان کیا کہ ا±ن کی حکومت صوبے کے ہسپتالوں کے لیے آکسیجن تیار کرنے والے مزید پلانٹس درآمد کر رہی ہے۔