تہران: ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے یہ کہتے ہوئے کہ ایران و سعودی عرب کے درمیان تعلقات اچھے نہیں ہیں کہا کہ اگرچہ اس کا ذمہ دار ایران نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ سعودی عرب سے مذاکرات کا پانچوں دور کرنے کے لیے تیار ہے۔ عبد اللہیان نے لبنان کے الماعدین ٹی وی کو انٹرویو کے دوران اپنے ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو زبردست چیلنجوں کا سامنا ہے اور ہم ہر دو ممالک کے درمیان مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے کی ہر ممکن کو شش کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ایران سے قطع تعلق کا ذمہ دار سعودی عرب ہے جبکہ ایران کے کویت اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سمیت کئی عرب ممالک سے دوستانہ رشتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب کا متضاد رویہ مثلاً 81 افراد کو پھانسی دینا ہمارے تعلقات کو متاثر کرنے کا سبب بنا ہے علاوہ ازیں ہم منیٰ سانحہ میں 460 ایرانی حاجیوں کی شہادت کو نہیں بھول سکے ہیں۔امیر عبدالہیان نے اس امر پر زور دیا کہ یمنی لوگ کا اپنے اقتدار اعلیٰ کا دفاع کرنا ان کا اپنا مسئلہ اور سر دردی ہے اور ایران کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہیں لیکن ہم جنگ اور یمنی قوم کی ناکہ بندی کے خاتمے کا خیرمقدم کرتے ہیں ۔انہوں نے اس کی تردید کی کہ یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا تعلق ایران سے ہے۔ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے سعودیوں کو بتایا کہ یمن کا مسئلہ اس ملک کے عوام کے فیصلے پر منحصر ہے۔
امیر عبداللہیان نے مصر کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کہا کہ ایران کی پالیسی مصر سے تعلقات متوازن انداز میں مستحکم رکھنے کی ہے۔انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ اسرائیلی حکومت نہایت کمزور حالت میں ہے اور بہت سے مسائل سے دوچار ہے، کہا کہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی سیف القدس جنگ نے اسرائیلی حکومت کی کمزوری کو ثابت کر دیا ہے۔ایرانی وزیر خارجہ نے حالیہ دنوں میں شرم الشیخ میں مصری، متحدہ عرب امارات اور صیہونی حکام کے درمیان سہ فریقی اجلاس کے بارے میں کہا کہ ہم کسی بھی اسرائیلی اہلکار سے ملاقات کو بیت المقدس اور فلسطینی عوام کے ساتھ غداری سمجھتے ہیں۔انہوں نے صیہونی حکومت کی خلیج فارس میں دراندازی کی کوشش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران خلیج فارس میں کسی بھی اسرائیلی اثر و رسوخ کو برداشت نہیں کرے گا اور اس خطے کے عوام صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو مسترد کر رہے ہیں۔
