Swiss envoy to Iran under fire for wearing hijabتصویر سوشل میڈیا

تہران ،(اے یو ایس ) تہران میں سوئس سفیر پر ایران میں احتجاجی تحریک کو دھوکہ دینے کا الزام لگایا گیا تھا جب سفیرہ نے ایرانی علما کے ہمراہ ایک مذہبی مقام کے دورے کے دوران سیاہ چادر چادر اور سکارف پہن لیا۔سوئس وزارت خارجہ نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خاتون سفیر نادین اولیویری لوزانو نے مذہبی مقام پر جانے کے لیے پروٹوکول کے مطابق مناسب لباس پہنا ہوا تھا۔ اس سے قبل ایرانی میڈیا نے شہر قم کے دورے کے دوران پگڑی والے علما کے ساتھ سیاہ چادر پہنے لوزانو کی تصاویر شائع کی تھیں۔ یہ دورہ 16 ستمبر کو 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے پانچ ماہ بعد ہو رہا ہے۔ مہسا امینی کو حجاب نہ کرنے پر اخلاقی پولیس نے حراست میں لیا تھا اور دوران حراست ہی اس کی موت ہوگئی تھی۔

مہسا امینی کی موت کے نتیجے میں پورے ایران میں ایک احتجاجی تحریک شروع ہوگئی تھی۔تحریک میں 1979 میں انقلاب کے چار سال بعد 1983 سے جاری کردہ نقاب پہننے کے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ احتجاجی مظاہروں پر حکام کے کریک ڈاو¿ن کے دوران سینکڑوں افراد مارے گئے ہیں۔ حکام نے دانشوروں، وکلائ اور صحافیوں سمیت مزید ہزاروں افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔بیلجیئم کی رکن پارلیمنٹ ڈاریا صفائی نے ایران میں مظاہرین کی حمایت میں یورپ میں نکالے گئے مظاہروں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ڈاریا صفائی نے اپنی ٹویٹ میں سوئس خاتون کے سکارف پہننے کے عمل کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب لاکھوں ایرانی خواتین اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں اور یہ جانتے ہوئے کہ ان میں سے ہزاروں کو اس کے لیے مار دیا گیا ہے۔ سوئس سفیرہ کا چاد ر اوڑھ کر ظالموں کے پروپیگنڈا کا حصہ بننا قابل مذمت ہے۔اداکارہ اور انسانی حقوق کی کارکن نازنین بونیادی نے کہا کہ قدامت پسند مذہبی لباس میں سوئس سفیر نے خود کو مکمل ڈھانپ لیا۔ دوسری طرف بہادر ایرانی خواتین آزادی کے لیے سب کچھ خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ ایسا بالکل نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ امریکہ میں مقیم ایرانی مخالف خاتون مسیح علی نڑاد نے سفیر کے لباس کے انتخاب کو شرمناک اور اسے ایرانی خواتین کے ساتھ دھوکہ قرار دیا۔ سوئس وزارت خارجہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ مذہبی مقام کے دورے کے دوران خواتین پر لاگو ڈریس کوڈ کا احترام کیا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *