یروشلم(اے یو ایس)اسرائیل کی عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو حکم دیا ہے کہ وہ ماضی میں ٹیکس فراڈ میں ملوّث اپنے ایک سینیروزیرکو عہدے سے برطرف کردیں۔عدالتِ عظمیٰ نے شاس پارٹی کے رہنما آریہ دیری کے بارے میں 10 ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایاہے۔اس سے اسرائیلی کابینہ اورسپریم کورٹ کے درمیان حکومتی اصلاحات کے معاملے پرتناؤ میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ان اصلاحات کا مقصد سپریم کورٹ کولگام ڈالنا ہے۔فیصلے کی سمری میں کہا گیا ہے کہ ”زیادہ تر ججوں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ تقررانتہائی غیر معقول ہے،اس لیے وزیراعظم کو دیری کو وزیر کے عہدے سے ہٹادینا چاہیے“۔دیری کے پاس اسرائیل کی وزارت داخلہ اور صحت کا قلم دان ہے،وہ باری باری کی وزارت کے معاہدے کے تحت اب وزیرخزانہ بننے والے ہیں۔
انھوں نے گذشتہ سال ایک درخواست میں ٹیکس فراڈ کا اعتراف کیا تھا جس کی وجہ سے وہ جیل کی سزا سے بچ گئے تھے۔بعض ججوں نے اپنے فیصلے میں دیری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس سے پہلے اپنے ٹیکس کیس کی سماعت کرنے والی مجسٹریٹ کی عدالت کو بتایا تھا کہ وہ سیاست سے ریٹائرہورہے ہیں۔نیتن یاہو کی جانب سے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔وہ دسمبر میں دائیں بازو کی سخت گیرحکومت کے سربراہ کی حیثیت سے اقتدار میں واپس آئے تھے۔لیکن وزیر انصاف اورلیکوڈ پارٹی کے رکن یاریولیون نے کہا کہ عدالتِ عظمیٰ کی بینچ نے لوگوں کی پسند کا احترام نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔لیون نے ایک بیان میں کہا:”میں ربی آریہ دیری، شاس تحریک اور اسرائیلی جمہوریت کے ساتھ ہونے والی اس واضح ناانصافی کو مکمل طور پرٹھیک کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کروں گا“۔لیون کی تجویزکردہ اصلاحات عدالتوں میں تقررپر حکومت کے اثرورسوخ میں اضافہ کریں گی جبکہ سپریم کورٹ کے انتظامی اقدامات کے خلاف قانون سازی یا فیصلہ کرنے کے اختیارات کو محدود کریں گی، نیزنظرثانی کے عدالتی معیارکے طورپر”عقل مندی“کو بھی ختم کریں گی۔
اس منصوبے کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ متعصب اشرافیہ کے ججوں کی جانب سے عدالتی حد سے تجاوزپرقابو پانے کی ضرورت ہے۔اس پر مخالفین میں غم وغصے کی لہردوڑگئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچے گا اور جمہوری چیک اینڈ بیلنس کمزورہوجائے گا جو قانون کی حکمرانی کو تقویت دیتا ہے۔اتحادی جماعتوں بشمول انتہائی قوم پرست وزیربرائے سکیورٹی ایتمار بن غفیر اور وزیرخزانہ بیزایل سموٹریچ نے بھی لیون کے اس بیان کی تائید کی ہے جس میں انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ اس منصوبے کو آگے بڑھایا جائے۔ اسے نیتن یاہو کی بھی حمایت حاصل ہے۔خود ان پر بدعنوانی کے الزامات کے تحت مقدمہ چل رہا ہے۔شاس کومشرقِ اوسط سے تعلق رکھنے والے مذہبی یہودیوں کی زیادہ تر حمایت حاصل ہے۔اس نے یکم نومبر کو ہونے والے انتخابات میں اسرائیلی پارلیمان (الکنیست) کی 120 میں سے 11 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔اس نے ایک بیان میں کہا کہ ”عدالت کا یہ فیصلہ سیاسی تھا کیونکہ اس نے تو آج فیصلہ کیا کہ انتخابات بے معنی ہیں۔سیاسی نگران اداروں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ نیتن یاہو کو دیری کاتقرر کالعدم قرار دینے کا حکم دیا جائے۔انھوں نے یہ اپیل دیری کے خلاف حالیہ سزا اور ماضی کے جرائم کے پیش نظرکی تھی۔ یادرہے کہ انھیں 1999 میں رشوت لینے کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔