ایک سرکردہ کناڈیائی تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ’نام نہاد خالصتان‘ یا سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ہوم لینڈ کے قیام کی مہم کی آبیاری کرنے کے پس پشت پاکستان کا ہی ذہن کارفرما ہے اور وہی اصل کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان کے ہی حمایت یافتہ دہشت گرد ہندوستان اور کناڈا کے لیے سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ’خالصتان -اے پراجکٹ آف پاکستان ‘ کے عنوان سے میک ڈونلاڈ لوریر انسٹی ٹیوٹ سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے وقت میں جب سکھوں کی آبائی ریاست پنجاب میں خالصتان تحریک کا نام و نشان نہیں ہے پاکستان وقاعتاً خالصتان کا راگ الاپ رہا ہے۔معروف صحافی ٹیری مائیلوویسکی کی، جو برسوں سے کناڈا میں خالصتان نواز گروپوں سے رابطہ میں ہیں ،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خالصتان حامی گروپوں کو پاکستان کا حمایت کرنا در اصل کناڈا میں مقیم انتہاپسندوں سے فائدہ اٹھانا ہے ۔ میک ڈونالڈ لوریر انسٹی ٹیوٹ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگرچہ کناڈیائی حکومت پہلے ہی یہ کہہ چکی ہے کہ وہ سکھ فار جسٹس جسے 2019میں ہندوستان کالعدم قرار دے چکا ہے، جیسے گروپوں کے ذریعہ نومبر میں خالصتان پر نام نہاد رائے شماری کو تسلیم نہیں کرے گی پھر بھی رپورٹ میں انتباہ دیا گیا ہے کہ یہ تحریک انتہاپسندانہ نظریات کو ہوا دینے ، کنیڈیائی نوجوانوں کو انتہاپسند بنانے ، مفاہمت و مصلاحت کو تباہ و برباد کرنے اور قانون سازوں پر حاوی ہونے کے لیے آکسیجن فراہم کرے گی۔
رپورٹ کے دیباچہ میں سابق کناڈیائی کابینی وزیر اجل دوسانجھ اور تھنک ٹینک کے ایک پروگرام ڈائریکٹر شوالو مجمدار نے کہا کہ میلوسکی رپورٹ ہر اس شخص کو لازماً پڑھنا چاہئے جو خالصتان کی تجویز کی رہنمائی کرنے پاکستان کے اثر و رسوخ اور دنیا کی دو اہم جمہوریتوں میں اس کی دہشت گردی اور انتہاپسندی کی مہم کو سمجھنے کے خواہاں ہیں۔جسٹن ٹروڈیو حکومت کے پہلے دور میں 2015-19کے دوران خالصتان نواز گروپوں کے تئیں اس کی نرمی ہند کناڈا تعلقات میں کمی آنے کا کلیدی سبب تھا۔کناڈا میں لبرل پارٹی حکومت کا خالصتان نواز گروپ کی سرگرمیوں کی اجازت دینے کا اصل سبب آزادی اظہار رائے تھا۔ خالصتان نواز دہشت پسند گروپ اور پاکستان کی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے درمیان دیرینہ تعلقات کا پتہ لگنے کے علاوہ 1990میں خالصتانی دہشت گردوں کا پاکستان میں پناہ لینے کے انداز کے علاوہ رپورٹ میں ایر انڈیا کی پرواز کو بم حملہ سے، جس میں 329افراد ہلاک ہوئے تھے اور جس میں اکثریت کناڈیائی شہریوں کی تھی، بچانے میں کناڈیائی سیکورٹی ادارے کی ناکامی کا بھی خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے اس سے کوئی فرق نہیںپڑتا کہ ہندوستان میں خالصتان کی حمایت میں کتنی کمی واقع ہوئی ،بلاشبہ اب وہاں حمایت نہ ہونے کے برابر ہے،لیکن پاکستان میں یہ معاملہ اور مطالبہ اور تحریک ابھی زندہ ہے جہاں جہادی گروپوں نے سکھ علیحدگی پسندوں کے ساتھ اپنے مشترکہ دشمن ہندوستان کے خلاف کارروائی کو مشترکہ کاز بنا رکھا ہے۔”رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”پاکستان میں ممتاز خالصتانی شخصیت گوپال سنگھ چاؤلہ کی مثال سامنے ہے جو پاکستانی جہادی اور دہشت پسند لشکر طیبہ کے لیڈر حافظ سعید سے اپنے دوستانہ تعلقات کو مخفی نہیں رکھتے۔ سرے بی سی کے رہائشی ایک کناڈیائی شہری ستندر پال سنگھ گل برسوں سے پاکستان میں انٹرنیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن کے،جس پر ہندوستان، کناڈا ،یو کے اور امریکہ میں پابندی عائد ہے لیکن پاکستان نے پابندی نہیں لگائی ہے، ایک سینئر عہدیدار کے طور پر رہ رہے ہیں ۔
رپورٹ میں پاکستان میں سکھ اقلیت پر مظالم اور2020کے ریفرنڈم کے روح رواں سکھ فار جسٹس کے سربراہ گورپت ونت سنگھ پنن جیسے خالصتان نواز لیڈروں کی جانب سے حمایت جیسی دو نوعیتوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔اگرچہ پنن حقوق انسانی کے لیے تحریک چلانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ہندوستان کے ساتھ سرحدی تنازعہ میں وہ چین کے خیمہ میں ہیں اور انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو مکتوب ارسال کیا ہے جس مٰن انہوں نے حلف لیا ہے کہ ”اگر ہندوستان نے کبھی پاکستان پر حملہ کیا تو خالصتان نواز سکھ پاکستان کو بھرپور حمایت دیں گے۔“ رپورٹ میں خالصتان کے مجوزہ نقشوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں پاکستان میں اس زمین کا بھی جو روایتی طور پر سکھوں کی ہے ایک انچ بھی نہیں دکھایا گیا ہے اور نہ ہی لاہور دکھایا گیا ہے جہاں کہ دو سو سال پہلے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکمرانی میں سکھ سلطنت قائم تھی۔ یہاں تک کہ پہلے سکھ گورو اور سکھ مت کے بانی مہاراج بابا گورو نانک کے مقدس جائے پیدائش ننکانہ صاحب کو بھی نقشہ میں نہیں دکھایا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سکھوں کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے لیکن پاکستان کے اندر آزاد نہیں دیکنا چاہتا۔جواب میں علیحدگی پسند پوری طرح جانتے ہیں کہ ان کے سرپرستوں نے ان کی حدیں کہاں تک مقرر کر رکھی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک نقشہ بناتے وقت بھی پاکستان کے تئیں فراخدلی دکھانا ایک بڑا قدم ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کی جانب سے طویل عرصہ سے دکھایا جانے والا خالصتان کا خواب ٹوٹ سکتا ہے۔