بروسلز: 1971میں آپریشن سرچ لائٹ المعروف ڈھاکہ آپریشن کے شہیدوں کو یاد کرتے ہوئے جنوب ایشیا ڈیموکریٹک فورم (ایس اے ڈی ایف) کے بانی اور ایکزیکٹیو ڈائریکٹر پول کاساکا نے بین الاقوامی برادری سے پر زور اپیل کی کہ پاکستان کے ذریعہ1971میں بنگلہ دیشیوں کی نسل کشی کو تسلیم کرے اور پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دے۔ کاساکا نے کہا کہ انسانی حقوق کے سچے اور حقیقی محافظوں اور علمبرداروں کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ وہ بنگلہ دیشیوں کے شانہ بشانہ کھڑے اور ان سے ہم آہنگ ہو کر اس نسل کشی کو یاد کریں اور ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1971میں کی گئی نسل کشی کو نصف صدی گذر چکی ہے لیکن اس کے باوجود ڈھیٹ اور بے حس پاکستان نے کبھی بھی معذرت کرنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔کاساکا نے کہا کہ وہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگلہ دیشیوں کی نسل کشی کے حوالے سے یاد، انصاف اور احتساب کے لیے بنگلہ دیشی عوام کی جدوجہد سے بہت متاثر ہیں۔کاساکا نے مزید کہا کہ اس نسل کشی کا ، جو دونوں مغربی و مشرقی پاکستان کی اسلامی انتہاپسند تنظیموں نے متحد ہو کر راہ ہموار کی تھی،مقصد اشرافیہ، عمائدین ،اعلیٰ شخصیات کو تہ تیغ ،شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کی قیادت کو حراست میں لے کر پارٹی کا خاتمہ، مذہبی تنوع کو تباہ ، خواتین کی عصمت دری، مشرقی پاکستان کی انتظامیہ پر فوج کا مکمل کنٹرول اورمنظم بغاوت روکنے کے لیے ایسٹ پاکستان رائفلز (ای پی آر)، پولیس اور فوج میں بنگالی سپاہیوں کو غیر مسلح کر کے بنگالی شناخت کو صفحہ ہستی سے مٹادینا تھا۔ کاساکا نے ڈھاکہ میڈیکل کالج اسپتال کے برن اینڈ پلاسٹک سرجری یونٹ کے، جہاں اسلامی دہشت گردوں کو کارروائیوں کے بے شمار متاثرین زیر علاج تھے، اپنے دورے کا ذکر کرتے ہوے کہا کہ حیثیت کے لحاظ سے یہ مسئلہ آنے والے الیکشن کے قیاس شدہ ناقص حالات سے متعلق تھا، تاہم انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل بنگلہ دیش کے سرکاری استغاثہ نے 7 دسمبر 2013کو ایک عوامی کانفرنس میں وضاحت کی کہ اگر حکومت انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل بنگلہ دیش کو تحلیل کرنے کا مطالبہ تسلیم کر لیتی ہے تو احتجاج دم توڑ دے گا اور ختم ہو جائے گا۔
کاساکا نے مزید کہا کہ اگر وہ خود بنگلہ دیش کے دارالخلافہ ڈھاکہ نہ گئے ہوتے ،ڈاکٹروں، مجسٹریٹوں ، ماہرین تعلیم یا عام شہریوں سے بات نہ کی ہوتی تو تو پتہ ہی نہ چلتا کہ کیا کچھ ہو رہا ہے کیونکہ مغربی ابلاغی ذرائع میں بھی حقائق دستیاب نہیں تھے۔ بنگلہ دیشی نسل کشی کے نام کی جانے والی ایس اے ڈی ایف کی تازہ ترین رپورٹ میں پروفیسر دین نے 1996میں گریگوری اسٹانٹن کے بیان کردہ ’نسل کشی کے دس درجے“ (درجہ بندی، علامت سازی، امتیازی سلوک، غیر انسانی، تنظیم، یک قطبیت ، تیاری، ظلم و ستم، تباہی، انکار )کا حوالہ دیا۔کاساکا نے کہا کہ گذشتہ 25سال نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہمیں اس واپس مڑنے کے عمل میں پوری طرح سے نئی شکل شامل کرنی چاہئے۔ تردید کا مرحلہ تفریق برتے جانے کے ایک مزید پیچیدہ درجے میں تبدیل ہو گیا ہے۔1971کی نسل کشی میں پاکستانی فوج نے دانستہ لاکھوں بنگلہ دیشیوں پر ظلم ڈھائے تھے۔دائیں بازو کا گروپ کہتا ہے کہ 1971 کی دلخراش مار کاٹ تاریخ کے بدترین مظالم میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔جس میں کم از کم30لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا دو لاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی اور ایک کروڑ سے زائد لوگوں کو پناہ لینے کے لیے سرحد پار کر کے ہندوستان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
