پشاور(ا ے یو ایس)پولیس لائن میں خودکش دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد95ہوگئی اور ان میں سے کئی پولیس افسران اور اہلکار بھی شامل ہیں۔ یہ دھماکہ مسجد میں ظہر کی نماز کے وقت پیش آیا۔حالیہ سالوں میں سب سے ہولنا ک دھماکہ رہا اور یہ دھماکہ اتنا زبردست رہا کہ نمازیو ںکی لاشوں کی شناخت کرنا مشکل ہوگیا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اب تک85لاشیں مختلف اسپتالوں میں لائی گئیں جبکہ کئی لاشیں ملبے کے نیچے ابھی بھی دبی ہوئی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ارب نواز پانچ انسپکٹر اور مسجد کے امام صاحب زادہ نورالامین بھی شامل ہے۔ بھاری مشینری سے ملبے کو ہٹایا جارہا ہے ۔اس حملے میں ملوث خودکش کا سر بھی ملا ہے یہ بھی اندیشہ ہے کہ حملہ آور پہلے سے ہی پولیس لائن میںموجود تھا۔ اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیاجارہا ہے کہ وہ کسی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر پولیس لائن کے احاطے میں داخل ہوگیا ہے۔ اس پولیس لائن میں دو ہزار سے زیادہ اہلکار مقیم ہیں اور اس کے علاوہ آٹھ مختلف محکموں کے ملازم بھی یہاں موجود ہیں۔
پشاورکے علاقے پولیس لائنز کی مسجد میں پیر کو ہونے والے خودکش حملے کے بعد جائے واقعہ سے ملبہ ہٹانے کا کام تاحال جاری ہے جب کہ واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 92 ہو گئی ہے۔ڈپٹی کمشنر پشاور ریاض خان محسود نے پشاور خودکش حملے میں 92 افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔اس سے قبل پشاور کے لیڈری ریڈنگ اسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق پولیس لائنز دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد میں سے اسپتال میں اب بھی 57 مریض زیرِ علاج ہیں جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔جائے وقوع پر بھاری مشینری کی مدد سے ریسکیو آپریشن جاری ہے اور فوج کے دستے بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ریسکیو حکام کے مطابق مسجد کے ملبے تلے اب بھی متعدد افراد کے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔نگراں وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان کی ہدایت پر پشاور دھماکے کے غم میں صوبے بھر میں منگل کو یومِ سوگ منایا جا رہا ہے اور سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں ہے۔
سی سی پی او پشاور محمد اعجاز خان کے مطابق مبینہ خودکش حملہ آور کا سر بھی مل گیا ہے تاہم ریسکیو آپریشن مکمل ہونے کے بعد ہی دھماکے کی نوعیت کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا جا سکے گا۔ان کے بقول “ہوسکتا ہے کہ حملہ آور پہلے سے ہی پولیس لائنز میں موجود ہو۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ حملہ آور کسی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر پولیس لائنز کے اندر داخل ہوا ہو۔”اس سے قبل سیکیورٹی حکام کا بتانا تھا کہ خود کش حملہآور مسجد میں نماز کے دوران پہلی صف میں موجود تھا جس نے جماعت شروع ہونے کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس سے مسجد کی تمام کھڑکیاں اور دورازے ٹوٹ گئے جب کہ چھت کا کچھ حصہ منہدم ہو گیا تھا۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان محمد خراسانی نے پشاور خودکش حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق ٹی ٹی پی ترجمان نے کہا ہے کہ مساجد سمیت دیگر مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا ان کی پالیسی نہیں، اس حملے میں اگر ان کا کوئی رکن ملوث پایا گیا تو تنظیم کی پالیسی کے تحت سزا کا مستحق ہو گا۔ٹی ٹی پی ترجمان کے بیان سے دس گھنٹے قبل سربکف محمد نامی ٹی ٹی پی کمانڈر نے پشاور خودکش حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمانِ کی جانب سے پشاور خودکش حملے سے لاتعلقی کا بیان ایسے وقت سامنے آیا جب افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ نے پشاور حملے کی مذمت کی تھی اور اسے اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا تھا۔
