سندھ،:(اے یو ایس )سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس کے ملزمان کی نظر بندی کے نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دے دیا۔سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس کریم خان آغا نے پروین رحمٰن قتل کیس کے ملزمان کی نظر بندی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔سماعت کے دوران سیکریٹری داخلہ، آئی جی سندھ اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
آئی جی سندھ نے عدالتِ عالیہ کو بتایا کہ انٹیلی جنس رپورٹ اور مدعیہ عقیلہ اسماعیل کی درخواست بھی تھی، ہم مدعیہ کی درخواست پر کام کر رہے ہیں۔عدالت نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ ان ملزمان کے خلاف کیا کرمنل ریکارڈ ہے، کوئی ریکارڈ نہیں ہے تو پھر کس طرح ان ملزمان کو بڑے مجرم کا نام دے دیا گیا؟جسٹس کریم خان آغا نے آئی جی سندھ سے کہا کہ آپ کے محکمے کی انویسٹی گیشن سے مطمئن نہیں، خراب انویسٹی گیشن پر متعدد بار تنبیہ کر چکے۔عدالت نے کہا کہ آپ سب کے خلاف خراب انویسٹی گیشن پر کارروائی ہونی چاہیے، ریکارڈ ظاہر کریں کہ وہ ملزمان کرمنلز تھے، آپ نے عدالت کو کوئی ثبوت نہیں دیے، ایس ایس پی، ڈی آئی جی سب بتائیں کہ عدالت کو کون سے ثبوت دیے؟ ملزمان کو 90 روز کے لیے کیوں بند کرنا چاہتے ہیں؟ وضاحت دیں، آپ نے جس طرح انویسٹی گیشن کی، فیصلے میں سب لکھ دیا ہے۔
جسٹس کریم خان آغا نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ا?پ کی انویسٹی گیشن سے بالکل مطمئن نہیں، انف از انف، بس بہت ہو گیا، انتہائی معذرت کے ساتھ ہم پولیس افسران کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، ان سب پولیس افسران کے خلاف کارروائی ہو گی، ایڈووکیٹ جنرل دیکھیں کہ ان پولیس افسران کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ آفس کو پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی ہدایت کر دی۔سرکاری وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس ایشو پر کوئی کمیشن بنا دیا جائے۔عدالت نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ انف از انف، اب کوئی کمیشن نہیں بنے گا، ملزمان کی بریت اور ایم پی او میں 9 دن کا دورانیہ ہے، بتائیں، ان 9 دنوں میں ملزمان نے کوئی مشتبہ حرکت کی؟ ملزمان کے سی ڈی آر، انٹیلی جنس رپورٹس سے ثابت کریں۔آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ 2 مختلف اداروں کی جانب سے رپورٹ دی گئی ہے، ایک رپورٹ انٹیلی جنس بیورو کی ہے جبکہ دوسری اسپیشل برانچ کی ہے۔
