کابل:افغانستان کی طالبان حکومت کے ایک اہم عہدیدار نے کہا کہ اگر مرد عوامی مقامات پر خواتین کو بے پردہ گھومتے دیکھ سکتے ہیں تو اس سے عورتیں اپنی قدر و منزلت کھو دیں گی۔۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے علمائے دین اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کو گھر سے باہر نکلتے وقت اپنا چہرہ ڈھانپ کر رکھنا چا ہئے۔ طالبان، جنہوں نے اگست 2021 میں ملک کی دوبارہ عنان حکومت سنبھالی، خواتین کو پارکوں، ملازمتوں اور یونیورسٹی سمیت زیادہ تر عوامی مقامات پر جانے سے روکنے کی اصل وجہ حجاب یا اسلامی اسکارف پہننے کے مناسب طریقے پر عمل نہ کرنے کو قرار دیا ہے۔
طالبان کی وزارتِ برائے بدی و نیکی کے ترجمان مولوی محمد صادق عاکف نے جمعرات کے روز دی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر خواتین کھلے چہرے اور بے پردہ عوام میں نظر آتی ہیں تو فتنے کا امکان یا گناہ سرزد ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ بے پردہ خواتین پر نظر ڈالنا بہت بری بات ہے۔ عاکف نے کہا کہ بعض علاقوں (بڑے شہروں) میں خواتین کو بے پردہ گھومتے دیکھنا بہت برا لگتا ہے اور ہمارے علماکا بھی اس پر کامل اتفاق ہے کہ خواتین کے چہرے نقاب کے پیچھے چھپے ہونے چاہئیں۔ ایسا نہیں ہے کہ نقاب یا حجاب سے اس کے چہرے کو کوئی نقصان پہنچے گا یا خراب ہوجائے گا۔ عورت کی اپنی قدر ہوتی ہے اور وہ قدر مردوں کے نظر ڈالنے سے کم ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی با پردہ خواتین کو عزت بخشتا ہے اور اس میں قدر و قیمت بھی ہے۔
بدھ کے روز، اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی گورڈن براؤن نے کہا کہ افغان لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم اور ملازمت سے محروم کرکے انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب میںبین الاقوامی فوجداری عدالت کو طالبان رہنماو¿ں پر مقدمہ چلانا چاہئے۔ عاکف نے پابندیوں کے بارے میں استفسار کیے جانے پر کہا کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے دیگر محکمے موجود ہیں۔عاکف نے کہا کہ وزارت کو اپنے کام میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور لوگوں نے اس کے اقدامات کی حمایت کی۔ لوگ یہاں شریعت (اسلامی قانون) کا نفاذ چاہتے تھے۔ اب ہم شریعت کا نفاذ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام فرمان اسلامی احکام کے عین مطابق ہیں اور طالبان نے ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کی ہے۔ شریعت کے احکامات 1400 سال پہلے جاری ہوئے تھے اور وہ اب بھی موجود ہیں۔