واشنگٹن:(اے یو ایس)امریکا نے شدت پسند گروپ ’داعش‘ کی خراسان شاخ کے سربراہ ثنا اللہ غفاری کے بارے میں معلومات فراہم کرنے یا اس کا سراغ لگانے میں مدد کرنے پر ایک کروڑ ڈالر انعام کا اعلان کیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے اعلان کردہ انعامی رقم کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہر وہ شخص جو ایسی معلومات فراہم کرتا ہے جو 26 اگست 2021 کو کابل ایئرپورٹ پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے مرتکب افراد کو گرفتار کرنے یا سزا دینے میں مدد کرتا ہے تو اسے انعام دیا جائے گا۔ اس حملے کی ذمہ داری ٰ داعش خراسان نے قبول کی تھی۔ اس حملے میں 13 فوجیوں سمیت تقریباً سو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
گذشتہ نومبر میں امریکی محکمہ خارجہ نے ثنا اللہ غفاری جسے شہاب المہاجر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے خراسان میں داعش کا موجودہ امیر نامزد ہے اسے 2020 میں افغانستان میں تنظیم کی قیادت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ غفاری پورے افغانستان میں ’داعش‘ کی تمام کارروائیوں کی منظوری دینے اور کارروائیوں کو انجام دینے کے لیے ضروری فنڈنگ حاصل کرنے کا ذمہ دار ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدامات ان انتھک کوششوں کا حصہ ہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان دوبارہ کبھی بین الاقوامی دہشت گردی کا پلیٹ فارم نہ بنے۔’ داعش- خراسان صوبہ‘ کا نام ایک پرانے نام کے نام پر رکھا گیا جو اس خطے کو دیا گیا تھا۔
یہ پہلی بار 2014 کے آخر میں مشرقی افغانستان میں نمودار ہوا اور اپنی خوفناک کارروائیوں کی بدولت جلد ہی مشہور ہوگیا۔خطے میں انتہا پسندانہ تحریکوں کے بارے میں کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش – خراسان صوبہ کو پاکستانی طالبان کے انتہا پسند عناصر نے قائم کیا تھا جو اس وقت افغانستان فرار ہوئے جب پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ان کے خلاف مہم شروع کی۔شروع سے ہی شدت پسند تنظیم جسے عام طور پر ’داعش‘ کے نام سے جانا جاتا ہے افغانستان میں طالبان تحریک کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہے تاکہ پاکستان کے ساتھ سرحد پر اہم علاقوں کو ، جو،منشیات اور دیگر سامان کی اسمگلنگ سے منسلک ہیں، کنٹرول کیا جا سکے ۔اسی وقت اس گروپ نے کابل اور دیگر شہروں میں حکومتی اور غیر ملکی فوجی اہداف کے خلاف خود کش بم حملے بھی کیے جو بہ ظاہر انتہا پسند تحریک کے طور پر اپنی شبیہ کو مستحکم کرنا چاہتے تھے۔
ان کے حملوں میں گاو¿ں کے معززین کی بہیمانہ پھانسی، ریڈ کراس کے ملازمین کے قتل سے لے کر ہجوم کے درمیان خودکش حملوں تک، ہزارہ اقلیت سے منسلک اہداف کے خلاف خونریز خودکش بم حملوں کا سلسلہ شامل تھا۔ابتدائی طور پر پاکستان کے ساتھ سرحد پر محدود علاقوں تک محدود گروپ نے شمالی صوبوں بشمول جوزجان اور فاریاب میں دوسرا بڑا محاذ قائم کیا۔ ویسٹ پوائنٹ کاو¿نٹر ٹیررازم سینٹر کا کہنا ہے کہ داعش خراسان میں دیگر انتہا پسند گروپوں کے پاکستانی، ازبک انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ افغان بھی شامل ہیں۔
