قادر خان یوسف زئی
عمران خان جب پہلی مرتبہ امریکا کے دورے پر جا رہے تھے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ محترمہ عصمت صدیقی و بہن فوزیہ صدیقی نے راقم سے ملاقات میںخواہش ظاہر کی کہ وزیراعظم کو اپنے انتخابی منشور میں عافیہ صدیقی کی واپسی کے وعدے کو یاد دہانی کردایں ، اُن کے حکم ٹالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ، اسی لئے انہی صفحات میں ارباب اختیار کو یاد کرانے کی کوشش کی کہ قوم کی بیٹی کی واپسی کے لئے اپنے وعدے پر عمل درآمد کی ہر قسم کی کوشش کو مقدم بنائیں۔ اُن دنوں والدہ عافیہ کی طبعیت ناساز تھی اور تاحال اپنی بیٹی کی صحت کے حوالے سے آنے والی خبروں کی وجہ سے ان کی اپنی طبعیت مسلسل بگڑتی جارہی ہے ۔ میں بہت دل گرفتہ تھا کہ قو م کی بیٹی کے لئے ہماری گذارشات کو پھرردّی کی ٹوکری کی نذر کردیا۔
گذشتہ دنوںایک مرتبہ پھر ڈاکٹر فوزیہ کی جانب سے پیغام ملا کہ کچھ مہمان خیبر پختون خوا سے آئے ہوئے ہیں ، اگر آپ بھی آجائیں ۔ بہن کے اس بلاوے کو رد ّکرنے کی جرات نہیں ہوسکتی تھی ،اس لئے تمام مصروفیات کو ترک کرکے حاضر ہوگیا ، دارالعلوم بنوریہ سائٹ کے کچھ علما اکرام کے علاوہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے کچھ سنیئر صحافی و کالم نویس بھی موجود تھے ۔ سلام دعا کے بعد، ایک جانب نشست پر بیٹھ کر وہی باتیں دوبارہ سننے لگا جو ان گنت مرتبہ دوہرائی جا چکی ہیں، یقین کیجئے کہ ہر بار کی طرح پھر شرمساری سے نظر جھک گئیں کہ ایک بھائی اپنے بہن کے لئے کچھ نہیں کرسکتا ۔ مہمان حضرات نے پے در پے کئی سوالات ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے پوچھے ، ہر سوال کا جواب انہوں نے تفصیل کے ساتھ دیا، حالاں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے لئے” کیا کیا جارہا“ ہے ۔ لیکن ہم بس کچھ لمحات اور دعا کرکے واپس اپنی دنیا میں گم ہوجاتے ہیں ۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بتایا، عافیہ صدیقی کی واپسی کے لئے قدرت نے ایک موقع اور فراہم کیا ، کیونکہ امریکا میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں اور ہر صدارتی انتخابات سے پہلے امریکی صدر اپنے خصوصی اختیارات (سابق صدر اوبامہ کی طرح) استعمال کرکے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا ختم یا پھر کم ازکم پاکستان واپس بھجوا سکتا ہے ۔ وزیر اعظم کے گذشتہ دورے میں ایک جرات مندخاتون کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے غیر متوقع طور پر سوال اٹھانے پرڈاکٹر شکیل آفریدی کے تبادلے کی صورت کا واپسی کے لئے مذاکرات کاامکان ظاہر کیا گیا تھا ۔ یہ ویسے بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں ، ہم امریکی جاسوسوں و بلیک واٹر کے قاتلوں کی بات ہی نہیں کرتے ، بلکہ افغان طالبان کے کئی رہنماﺅں کو بھی پاکستان میں اسیر رکھا اور بغیر کسی قانونی کاروائی کے امریکاکے حوالے یا پھر افغانستان میں مغوی قیدیوں کے ساتھ تبادلے میں رہا کردیا گیا ۔ حال ہی میں مذاکرات کے نتیجے میں بھارتی انجینئرز کو افغان طالبان کے قیدیوں اور افغان مفاہمتی عمل کے اہم ترین رکن حقانی نیٹ ورک کے انس حقانی کی رہائی/تبادلہ عمل میں لایا گیا ۔ افغان مفاہمتی عمل کو کامیاب بنانے کے لئے امریکا کے کہنے پر ملا عبدالسلام ضعیف ، ملا عبدالغنی بردارسمیت کئی اہم رہنماﺅں کو بغیر کسی ملکی قانون و عدالتی کاروائی کئے صرف اس لئے رہا کیا جاتا رہا تاکہ خطے میں امن کی بحالی میں مثبت کردار ادا کیا جاسکے ۔ یہ پاکستان کی جانب سے افغانستان و امریکا پر احسان ہے کہ افغان طالبان کو پاکستان میں گرفتار کرنے کے باوجود ،صرف خطے میں امن کے لئے جاری مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے بڑا قدم اٹھایا ۔ اس سے ریاست کی پذیرائی ہوئی اور دنیا بھر میں پاکستانی اداروں کا ایک اچھا تاثر بھی گیا ، سیکورٹی کی صورتحال بھی بہتر ہوتی چلی گئی اور یورپی ممالک ، خاص طور پر برطانیہ نے اپنی ٹریول ایڈویزی بھی تبدیل کی ۔
پاکستانی حکام، امریکا سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے لئے ایک سنہرے موقع سے دوبارہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ امریکی صدارتی انتخابات سے قبل وزرات خارجہ میں پڑی ، اُس” فائل“ کو وائٹ ہاﺅس بھیجوا دینا چاہیے ، جس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی و واپسی کے لئے تمام قانونی پہلوﺅں کے ساتھ دستاویزات موجود ہیں۔ اس ” فائل “ کے پہلے صفحے پر وزارت خارجہ نے صرف دستخط کرکے آگے بڑھانا ہے ، جس کے بعد ڈاکٹر عافیہ کی رہائی/ واپسی کی راہ ہموار ہوجائے گی ۔ راقم نے ڈاکٹر فورزیہ صدیقی سے متعدد بار اور حالیہ ملاقات میں کئی چبھتے سوالات بھی پوچھے ، لیکن انہوں نے ریاست کے تمام اداروں پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ، انہوں نے سختی سے باور کرایا کہ ان کے کوئی سیاسی یا مذہبی مقاصد نہیں ہیں ، ان کا واحد مقصد صرف ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی ہے ۔ مقتدور ادارے اس حوالے سے کوئی بھی ضمانت یا اطمینان چاہتے ہوں ، اس کے لئے وہ تیار ہیں ، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے یہ بھی بتایا کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وزرات خارجہ میں ایسے کون سے عناصر ہیں جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کی راہ میں رکاﺅٹ ڈال رہے ہیں ۔ انہوں نے التجا بھی کہ کہ ہم اُن ارباب اختیار کے پاس جانے کو بھی تیار ہیں ، جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے، کسی بھی شرط پر ہماری مدد کرسکتے ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم اب کس ادارے کے پاس جائیں جو ہمارا مسئلہ حل کردے ۔ڈاکٹر فوزیہ کی تمام تر گفتگو کا لب لباب یہی رہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف ، یوسف رضا گیلانی ، شاہد خاقان عباسی اور موجودہ وزیراعظم عمران خان سے لے کر وزرائے خارجہ تک ، سب نے یقین دہانی کرائی کہ قوم کی بیٹی کو باعزت طری
قے سے واپس لانا ، اُ ن کا فرض ہے ۔
ڈاکٹر عافیہ کی رہائیواپسی صرف ایک بے گناہ خاتون کی رہائی نہیں ہے، بلکہ یہ پوری پاکستانی قوم و اداروں کی عزت و وقار کا معاملہ بن چکا ہے کہ جس کو قوم کی بیٹی اور بہن قرار دیا ، وہ قوم اور اس کے با اختیار ادارے و سیاسی جماعتیں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ اس درد کو سب نے محسوس کرنا ہوگا کہ اگر اِن کی اپنی بہن و بیٹی کے ساتھ خدانخواستہ چھوٹا سا بھی واقعہ پیش آجائے تو قیامت گذر جاتی ہے ، 6150سے زائد دن اسیری میں گذر گئے اور عافیہ کو بے گناہ ہونے کے باوجود فروعی مفادات کے لئے پابند سلال رکھا ہوا ہے۔ میرا صرف ایک ا سوال ہے کہ مائیں، بہن اور بیٹیاں یہ نہیں سوچتی ہوں گی کہ جو اپنی قوم کی ایک بے گناہ بیٹی کوآزاد نہیں کراسکتے تو وہ لاکھوں کشمیری و بھارتی مسلمانوں کو ظالم ، جابر و فسطائی حکومت کے ظلم و آبروریزی سے کس طرح بچا نے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ای میل:qadirkhan.afghan@gmail.com