کابل: افغانستان کے دارالخلافہ میں جمعہ کے روز ایک اجتماع پر، جس میں حزب اختلاف کے لیڈر عبداللہ عبداللہ بھی موجود تھے، دہشت گردانہ حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔
لیکن مسٹر عبداللہ اس حملہ میں بال بال بچ گئے۔ایک سینیئر سیکورٹ عہدیدار نے بتایا کہ اس حملہ میں کم از کم27افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
جلسہ گاہ کے قریب ہی واقع ایک اسپتال کے سربراہ داؤد دانش نے کہا کہ صرف انہی کے اسپتال میں اب تک26میتیں اور20زخمی لائے جا چکے ہیں۔
اگرچہ سیکو رٹی اہلکاروں کا کہنا ہےکہ انہوں نے حملہ آوروں کو ایک قریبی عمارت میں محصور کر دیا ہے ،پھر بھی حملہ کے دو گھنٹے بعد بھی علاقہ میں گولیاں چلنے کی آوازیں آرہی ہیں۔اس حملہ کی فوری طور پر ابھی کسی نے ذمہ داری نہیں قبول کی ہے۔
تاہم طالبان نے ایک بیان میں اس حملہ میں اپنے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔اس حملہ کی تفصیل بتاتے ہوئے عبد اللہ عبد اللہ کے ترجمان فریدون کوازون نے کہا کہ حملہ کی ابتداءایک دھماکہ سے ہوئی جو شاید علاقہ میں ایک راکٹ گرنے سے ہوا تھا۔
تاہم اس حملہ میں عبد اللہ عبداللہ اور کچھ دیگر سیاستداں بال بال بچ گئے۔حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں حالات بہت کشیدہ اور خراب ہوئے ہیں۔
اور اس کے کئی اسباب میں سے ایک یہ ہے مسٹر عبداللہ ان انتخابات کے نتائج کو،جس میں موجودہ صدر اشرف غنی کو فاتح قرار دیا گیا،چیلنج کر رہے ہیں ۔
کیونکہ مسٹر عبداللہ نے بھی خود کو فاتح قرار دے دیا ہے اور 18سال پرانی جنگ کے خاتمہ اور غیر ملکی فوجوں کے انخلا کی امیدوں کے ساتھ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے موقع پر کابل میں دو متوازی حکومتی تقریبات کے انعقاد کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔