Allahabad HC slams UP govt over 'misuse' of cow slaughter actتصویر سوشل میڈیا

پریاگ راج:( اے یوایس ) الہ آباد ہائی کورٹ نے ریاست میں گﺅ تحفظ ایکٹ کے غلط استعمال اور آوارہ مویشیوں کی دیکھ بھال کی حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوپی میں بے گناہوں کے خلاف گﺅ تحفظ ایکٹ کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے۔

کورٹ نے کہا کہ جب بھی گوشت برآمد ہوتا ہے اس کی فورنسک لیب میں جانچ کرائے بغیر اسے گائے کا گوشت قرار دیا جاتا ہے اور بے قصور شخص کو اس الزام میں جیل بھیج دیا جاتا ہے جو شائد اس نے کیا نہیں ہے۔

کورٹ نے آوارہ مویشوں کی دیکھ بھال کی حالت پر کہا کہ ریاست میں گﺅ تحفظ ایکٹ کو صحیح جذبے کے ساتھ نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ باتیں جسٹس سدھارتھ نے گﺅ تحفظ ایکٹ کے تحت جیل میں قید رحیم الدین کی ضمانت عرضی پر سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں کہیں۔ عدالت نے رحیم الدین کی عرضی منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔

ضمانت عرضی میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی آر میں عرضی گذار کے خلاف کوئی خاص الزام نہیں ہے اور نہ ہی وہ موقع واردات پر پکڑا گیا ہے۔

اس کے علاوہ پولیس نے برآمد گوشت کی حقیقت جاننے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے کہ وہ گائے کا گوشت ہی ہے یا کسی دیگر مویشی کا ہے۔عدالت نے کہا کہ زیادہ تر معاملوں میں جب گوشت پکڑا جاتا ہے تو اسے گائے کا گوشت قرار دیا جاتا ہے۔

اسے فورنسک لیب نہیں بھیجا تا اور ملزم کو اس جرم میں جیل بھیج دیا جاتا ہے جس میں سات سال تک کی سزا کی تجویز ہے۔عدالت نے مزید کہا کہ اسی طرح سے جب گائیں برآمد کی جاتی ہیں تو کوئی ریکوری میمو تیار نہیں کی جاتی اور کسی کو نہیں پتہ ہوتا ہے کہ برآمدگی کے بعد اسے کہاں لے جایا جائے گا۔

وہ دودھ دینا بندکردیں تو مالک بھی یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ گﺅشالہ والے بھی انہیں قبول نہیں کرتے۔ وہ فصلوں کو برباد کرتی ہیں اور سڑکوں پر حادثات کی وجوہات بنتی ہیں۔ ایسے مویشیوں کو گﺅشالاو¿ں یا ان کے مالکوں کے پاس ہی رکھنے کے لئے کوئی راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *