China sharply expands mass labour programme in Tibetتصویر سوشل میڈیا

گذشتہ ماہ تبت کی علاقائی حکومت کی ویب سائٹ پر ایک نوٹس چسپاں کیا گیا تھا کہ 2020کے پہلے سات ماہ میں پراجکٹ کے ایک جزو کے طور پر نصف ملین سے زائد لوگوں کو ،جو خطہ کی آبادی کا 15فیصد ہیں، تربیت دی جا چکی ہے۔ چین نے تبتی دیہی مزدوروں کی ایک کثیر تعداد کو حال ہی میں تعمیر کیے گئے فوجی انداز میں تربیت دینے والے مراکز میں لا کر تربیت دے کر فیکٹری کارکنوں میں بدل دیا یہ پروگرام مغربی سین سیانگ خطہ کاہو بہو پروگرام ہے جسے دائیں بازو کے گروپ جبری یا بندھوا مزدوری کا نام دیتے ہیں۔

سرکاری ذرائع ابلاگ کی سیکڑوں رپورٹوں،تبت میں حکومت کے بیورو سے دستیاب پالیسی دستاویزوں اور 2016-20کے درمیان جاری حصولی کی درخواستوں اور جن کو رائٹر ز نے دیکھی ہیں، کے مطابق چین نے تبت کے اندر اور چین کے دیگر حصوں میں دیہی مزدوروں کا وسیع پیمانے پر تبادلے کے لیے ایک کوٹہ مقرر کیا ہوا ہے۔

کوٹہ مقرر کرنے سے چینی صنعت کے لیے وفادار کارکنوں کی دستیابی کے مقصد کو تیزی سے کامیابی مل رہی ہے۔2020کے پہلے سات ماہ میں جن50ہزار لوگوں کو تربیت دی گئی ان میں سے بہت سوں کو کپڑا فیکٹریوں، تعمیرات اور زراعت کے شعبوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ ایک آزاد تبت اور سین سیانگ پر تحقیق کرنے والے ایڈریان زینز کا، جس نے اس پروگرام کے حوالے سے گہری چھان بین کی ہے ،کہنا ہے کہ ”یہ ، میری رائے میں تبتی بسر اوقات پر نہایت واضح اور نشان زد حملہ ہے جسے ہم 1966سے1976تک دیکھتے آئے ہیں ۔

یہ اس رپورٹ میں دی گئی تفصیل ہے جوامریکہ کے لیے اسٹیٹجک اہمیت کے پالیسی معاملات پر توجہ مرکوز رکھے والے واشنگٹن ڈی سی واقع انسٹیٹیوٹ جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن نے شائع کی ہے ۔یہ خانہ بدوشی اور کاشتکاری سے مواجب مزدوری میں بدل جانے والی تشدد آمیز طرز زندگی ہے۔رائٹرز نے زینگ کی تحقیقات کے اشتراک سے اس پروگرام کی وضاحت کرنے والی اضافی پالیسی دستاویزات، کمپنی رپورٹیں ، حصولیابی اندراج اور میڈیا رپورٹوں کا سہارا لیا۔رائٹرز کو ایک بیان دیتے ہوئے چین کی وزارت خارجہ نے جبری مزدوری کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ چین ایک ایسا ملک ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے اور مزدوروں کو مناسب اجرت دی جاتی ہے۔لیکن سین سیانگ اور تبت میں جہاں کثیر نسلی آبادیوں اور بدامنی کی ایک تاریخ رہی ہے،دائیں بازو کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ان پروگراموں میں نظریاتی تربیت پر غیر معمولی زور دیا گیا۔

تبتی پروگرام کو وسعت دی جارہی ہے کیونکہ سین سیانگ میں اسی قسم کے پراجکٹوں پر جن میں سے کچھ کا تعلق وسیع پیمانے پر ڈتینشن سینٹرز سے ہے، بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سین سیانگ میں ایک ملین افراد جن میں اکثریت ایغور مسلمانوں کی ہے ان کیمپوں میں قید کی زندگی گذار رہے ہیں اور وہاں ان کو نظریاتی درس دیا جا رہا ہے۔ابتدا میں چین نے ان کیمپوں کے وجود کی تردید کی لیکن اس رپورٹ کے آنے کے بعد اس نے انہیں پیشہ ورانہ اور تعلیمی مراکزکہنا شروع کر دیا اور کہا کہ یہاں سے لوگ تعلیم حاصل کر کے سند لے کر نکلتے ہیں۔

رائٹرز منتقل تبتی کارکنوں کے حالات کا پتہ نہیں لگا سکا۔غیر ملکی صحافیوںکو خطہ میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں ہے اور دیگر غیر ملکی شہریوں کو اس خطہ میںحکومت کے تسلیم شدہ سفری پروگرام کے تحت اجازت ہے۔حالیہ برسوں میں استحکام برقرار رکھنے کے نام پر سین سیانگ او رتبت کو سخت گیر پالیسیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

جس کے تحت نسلی شہریوں پر سفری پابندیاں لگا دی گئیں کہ وہ چین کے دیگر حصوں میں اور بیرون ملک نہیں جا سکتے۔علاوہ ازیں مذہبی سرگرمیوں پر بھی گرفت سخت کر دی گئی۔اگست میں صدر شی جن پینگ نے کہا تھا کہ چین تبت میں علیحدگی پسندی کے خلاف پھر اقدامات کرے گا۔تبتی روحانی رہنما کی قیادت میں نقادوں نے چینی حکام پر الزام لگایا کہ وہ خطہ میں ثقافتی نسل کشی کررہے ہیں۔ 85سالہ نوبل انعام یافتہ دلائی لامہ 1959میں چینی حکام کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد چین سے جلا وطن ہو کر ہندوستان کے شہر دھرمشالہ میں اقامت پذیر ہیں۔

چین کے اعداد و شمار کے نیشنل بیورو کی2018کی تعداد کے مطابق تبت کی تقریباً70فیصد آبادی دیہی ہے ۔جن میں ایک کثیر تعداد کسانوں کی ہے جو چین کے غربت ہٹاو¿ پروگرام کے لیے ایک چیلنج ہے۔چین نے 2020تک ملک سے دیہی غربت کے خاتمہ کا عہد کیا ہوا ہے۔

علاقائی اور پریفیکچر سطح کے نوٹسوں کے مطابق سنکیانگ کی طرح نجی بچولیے یعنی ایجنٹوں اور کمپنیوں کو ،جو تبادلوں کا نظم کرتی ہیں،خطہ سے باہر لے جانے کے لیے 74ڈالر فی مزدور سبسڈی دی جاتی ہے اور44ڈالر اندرون تبت منتقلی کے لیے دیے جاتے ہیں۔

ہر مزدور کاعلاقائی اور پریفیکچر سطح کے نوٹس کے مطابق ، نجی بیچوان ، جیسے ایجنٹوں اور کمپنیاں ، جو منتقلی کو منظم کرتی ہیں ، وہ ہر مزدور کو خطے سے باہر منتقل ہونے والے 74 $ اور تبت میں رکھے جانے والے افراد کے لئے $ 44 کی سبسڈی وصول کرسکتی ہیں۔عہدے داران پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ چین کے دیگر حصوں میں منتقلی مزدوری کے پروگرام رضاکارانہ ہیں اور تبتی حکومت کی اکثر دستاویزات میں بھی مزدوروں کے حقوق یقینی بنانے کے طریقہ کار کا ذکرکیا گیا ہے لیکن ان سے تفصیلات نہیں ملتیں۔

وکلاء، حقوق گروپوں اور محققین کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ مزدور کام پر رکھنے کے عمل کو ماننے سے انکار کرسکیں حالانکہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ برضا و رغبت کام کرنے کی جگہوں کو تسلیم کرسکتے ہیں۔

چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے،جو حکومت چین کی ایک اعلیٰ ا حیثیت والی مجلس شوریٰ کہلائی جاتی ہے، تبتی بازو کے ذریعہ جنوری میں جاری کی گئی ایک رپورٹ میں دیہی مزدوروں کی دماغی کمزوری سے نمٹنے کی حکمت عملیوں پر باہمی تبادلہ خیال بشمول تعلیم دینے اور عوام کو اپنے محنت کش ہاتھوں سے خوشگوار زندگی کے لئے رہنمائی کرنے عہدیداروں کی ٹیموں کو گاوو¿ں میں بھیجنا بھی شامل ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *