کراچی: پاکستان میں ابھی تک تو صرف سیاسی جماعتیں ہی ایک پرچم تلے جمع ہو کر حکومت وقت کے خلاف صف آراءتھیں اور جلسے جلوس کر رہی تھیں کہ اب صوبہ سندھ کی پولس بھی ملک کی طاقتور ترین اور نہایت با اختیار فوج کی ظلم و زیادتیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے پر تلی بیٹھی ہے اور اندر ہی اندر ایسا لاوا پک رہا ہے کہ اگر اسے فوری طور پر ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو شاید وہ ایسا پھٹ پڑے گا کہ پورا ملک اس کی زد میں آکر خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پرچم تلے حزب اختلاف کی11جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔کراچی میں ہوئی اس ریلی میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
ریلی کے فوراً بعد پی ایم ایل این کی نائب صدر اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر اعوان کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور ان کی گرفتاری کے لیے سندھ کے انسپکٹر جنرل پولس مشتاق مہر کو فوج کی ایماءپر رینجرز نے اغوا کر کے صفدر کی گرفتاری کے لیے ان سے ایک ایف آئی آر تیار کرائی اور پھر صفدر کے وارنٹ گرفتاری پر ان سے جبراً دستخط کرائے۔
اس حرکت سے سندھ پولس میں شید غم و غصہ ہے۔ سندھ پولس اس قدر آگ بگولہ ہے کہ سندھ بھر کے تین ایڈیشنل انسپکٹرجنرلوں،25ڈی آئی جیز ،300ایس ایس پی اور درجنوں ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ اوز نے 18/19کی درمیانی شب میں ہونے والے اس واقعہ کے، جس نے پورے پولس محکمہ کی تذلیل و توہین ہوئی ہے، خلاف احتجاج میں طویل رخصت لے لی۔
اس واقعہ سے فوج کی اعلیٰ قیادت بھی لرز اٹھی ہے اور فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ کو مداخلت کرنا پڑی اور انہوں نے اس کی انکوائری کا حکم جا ری کردیا۔
پاکستان فوج کے ابلاغی ذرائع بازو نے ایک باین جاری کر کے بتایا کہ جنرل باجوہ نے کراچی کور کمانڈر کو ہدایت کی ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے اس واقعہ کی تفصیلی رپورٹ انہیں پیش کی جائے۔
تاہم بیان میں اس ضمن میں کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی کہ اصل واقعہ کیا ہوا تھا۔ لیکن پی پی پی سربراہ لاول بھٹو زرداری کے اس مطالبہ کے بعد کہ صفدر کی گرفتاری کے عواقب و عوامل کا سراغ لگانے کے لیے تحقیقات کرائی جانی چاہئے فوج نے ایک بیان جا ری کر دیا۔