ایک طویل عرصہ سے جموں و کشمیر میں ہندوستانی سلامتی دستوں کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں نہ کرپانے سے پریشان جیش محمد نے اپنے جریدے اور ویب سائٹس پر تسلسل سے مضامین شائع کر کے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت سے کہا ہے کہ جہادی گروپوں پر عائد پابندیاں اٹھائی جائیں اور انہیں خطہ کی علیحدگی پسند تحریک کی حمایت میں کنٹرول لائن پار کارروائیاں کرنے دیا جائے۔
جیش محمد کے جریدے القلم کی 4ستمبر کی اشاعت میں ”طاقت کے مبلغین سے طاقت کی ہی زبان میں بات کی جائے“ کے عنوان سے شائع ایک نظم میں حکومت پاکستان کو تلقین کی گئی ہے کہ” دشمنوں کے ساتھ غلطی سے بھی نرمی سے بات نہ کی جائے۔“ تاہم پلوامہ واردات کے بعد سے جیش محمد کچھ چھوٹی موٹی کارروائیاں کرتی رہی ہے اور جون میں اس نے ایک کار بم حملہ کی کوشش کی تھی۔ اس نے دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ فوجی عملہ کا بھی خون بہایا اور پولس کے ساتھ مسلح تصادم میںآئی ای ڈی بنانے کا ماہر عبد الرحمٰن بھی مارا گیا۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 31اگست تک کشمیر میں جھڑپوں میں 17دہشت گردمارے گئے ہیں جن کی شناخت کچھ پاکستانیوں اور کچھ غیر ملکیوں کے طور پر کی گئی ہے۔ یہ گذشتہ دو سال کے دوران ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد سے کافی کم ہے۔ 2019میں 33اور 2018میں64دہشت گرد مارے گئے تھے۔ایک سینئر انٹیلی جنس عیدیدار نے کہا کہ یہ تعداد اس سال کنٹرول لائن پار سے ہونے والی دراندازی میں کمی کی عکاس ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق کشمیر میں 2020میں مارے گئے دہشت گردوں میں سے40فیصد ہی خود کار پستولوں جیسے سائڈ آمز سے لیس تھے اور کچھ دہشت گردوں کے پاس تو کوئی ہتھیار نہیں تھا۔
ایک سینئر پولس عہدیدار نے بتایا کہ کشمیر میں جہادی تحریک واضح طور پر اسلحہ سے لے کر بارود اور ٹریننگ تک وسائل کے شدید بحران سے دوچار ہے۔القلم جریدے کے 12اگست کے ایڈیشن کے اداریے کے مطابق ”کشمیر کے لوگوں کو امید تھی کہ ان کی جدوجہد میں سرحد پار سے حمایت و مدد ملے گی۔لیکن اس کے بجائے انہیں شاہراہوں، بینروں اور بل بورڈز پر ان کے نام اور شہیدوں کے لیے محض چند منٹ کی خاموشی ہی دیکھنے کو ملی۔پاکستان میں جہادی گروپوں پر گہری نظر رکھنے والی اسکالر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ کشمیر پر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے سخت الفاظ جہادیوں کو میدان میں اتارنے کی خواہش سے قطعاً میل نہ کھانے کے بہت سے اسباب ہیں ۔’جن میں’سعودی عرب کی جانب سے یہ واضح کر دیا جانا کہ وہ کشمیر پر بحران پیدا ہوجانے کے امکان سے پر جوش نہیں ہے ،فناشیل ٹاسک فورس سے پابندیوں کا خطرہ اور جنگ کا خطرہ“ شامل ہیں۔
صدیقہ نے کہا کہ اس میں شک و شبہ کی بہت کم گنجائش ہے کہ عمان خان حکومت کشمیر جہاد پر ڈھیلی پڑ گئی ہے ۔جو بات یاد رکھنے کے لیے اہم ہے وہ یہ ہے کہ جہادیوں کو کنٹرول کیاگیا ہے کچلا نہیں گیا۔2019میں ہندستانی فضائیہ کے حملے کے بعد حکومت پاکستان نے اعلان کجیا تھا کہ اس نے بھاولپور شہر میں واقع جیش محمد کے مدرسہ کو، جو گروپ کی کارروائیوں کے کلیدی مراکز میں سے ایک ہے، اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔جیش کی کئی تربیت گاہیں بھی منتشر کر دی گئیں۔
القلم کے اداریے میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ جنرل پروزی مشرف نے کشمیر جدوجہد پر بندشیں لگانے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں ناکامی ہوئی اور انہیں منھ کی کھانا پڑی۔”تحریک عسکری و غیر عسکری دونوں شکل میں مزید طاقتور بن کر ابھری“۔اور یہ لوگ بھی تحریک کچلنا چاہتے ہیں ۔“یہ بھی سینے پر امن کا تمغہ سجانا چاہتے ہیں ۔لیکن کوئی بات نہیں، حالات بدلیں گے۔ انہیں ناکامی کا منھ دیکھنا پڑے گا۔ اور نئی صبح ہوگی جب جہاد ایک بار پھر نمایاں ہو جائے گا۔ “
