لندن:سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے گارجین میں شائع اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پرہونے والے ظلم کی شدت اور ان کے حقوق کی پامالی کو صرف جنسی تعصب کی اصطلاح سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ صنفی تعصب کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا جائے۔ براؤن نے کہا کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں لڑکیاں اور خواتین دو سال سے شدید جبر کا سامنا کر رہی ہیں۔
رپورٹ میں ی بھی کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ میں افغانستان کے مستقل نمائندے نے سخت ترین الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیکن کسی کو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ افغان لڑکیوں پر جو کچھ بیت رہی ہے وہ کوئی عارضی یا وقتی پریشانی نہیں ہے بلکہ یہ جنسی عصبیت سے کم نہیں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں بہادر بچیاں طالبان کے فرمانوں سے روگردانی کی پاداش میں گرفتاری، قید اور تشدد کا شکار ہونے کے مسلسل خطرے میں زیر زمین کلاس رومز میں جا رہی ہیںاقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور پارٹنرشپ کنیکٹڈ لرننگ ان کرائسز کالجوں میں آن لائن تعلیم کے حق میںہیں۔
اس دوران براؤن نے کہا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) روم کے قانون کے تحت جسے 2003میں افغانستان نے تسلیم کر لیا تھا، صنفی تعصب کے لیے طالبان کے عہدیداران کو انفرادی طور پر جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ دسمبر 2022 میں آئی سی سی کی طرف سے جاری کردہ صنفی ایذا رسانی کے جرم سے متعلق پالیسی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جنسی تفریق بین الاقوامی قوانین کے برعکس ایک فرد کے شخصی حقوق سلب کر کے اسے بنیادی حق سے محروم کرتی ہے۔
مثال کے طور پر یہ ایک فرد کو تعلیم کے حق سے محروم کر سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ ریاستیں اپنے اختیارات کا استعمال کر کے طالبان کے جبر پر اپنی تنقید کا اظہار کرنے کے لیے اپنے خانگی قانونی نظام کے ذریعے مثلاً مخصوص طالبانی رہنماو¿ں کے خلاف پابندیاں لگا کرکارروائی کر سکتی ہیں۔ اس دوران انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ افغانستان میں بھی لڑکیاں آن لائن اور ریڈیو کورسز کے ذریعہ جیسا کہ باقی دنیا میں رائج ہے تعلیم حاصل کریں۔