کابل: (اے یو ایس ) ”افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ٹارگٹ کلنگ، خود کش حملے اور شدت پسندی کی کارروائیاں ختم ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی لیکن حالیہ دنوں میں پے در پے ہونے والے واقعات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ معاملات اتنی جلدی اور آسانی سے ختم ہونے والے نہیں ہیں۔یہ کہنا ہے افغانستان کے صوبہ ہلمند کے ضلع نادِ علی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر علی مہاجر کا، کا ایک دوست حال ہی میں کابل کے نواحی علاقے دشت برچی میں عبدالرحیم شہید اسکول پر ایک حملے میں مارا گیا ہے۔گزشتہ ماہ ہزارہ شیعہ اکثریتی علاقے دشتِ برچی میں عبدالرحیم شہید اسکول کے دھماکے میں نو افراد ہلاک جب کہ 19 زخمی ہوئے تھے۔
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے علی مہاجر کا کہنا ہے کہ دشتِ برچی دھماکے کے فوری بعد انہوں نے اپنے دوست کو فون ملانے کی کوشش کی تاہم ان سے رابطہ قائم نہیں ہو سکا تھا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد انہیں سوشل میڈیا سے ان کی ہلاکت کا پتاچلا۔وائس آ ف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت ہزارہ برادری شدید خوف کا شکار ہے۔ اس برادری کے افراد افغانستان میں اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کر رہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر کوئی پناہ کی تلاش میں افغانستان سے نکلنے کی کوشش میں ہے البتہ سب لوگوں کو وسائل میسر نہیں ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے افراد غیر قانونی راستوں سے بھی ملک سے نکلنے کی تگ و دو میں ہیں جس میں اکثر اوقات ان کی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔علی مہاجر نے بتایا کہ ہزارہ برادری کے ساتھ ساتھ ملک میں رہنے والی دیگر اقلیتیں بھی محفوظ نہیں ہیں اور وہ بھی حملوں کا شکار ہو رہی ہیں۔عالمی شدت پسند تنظیم داعش نے جمعے کو ہونے والے دو بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی۔ مزار شریف میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم نو افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔ دھماکے میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا۔
