کراچی:(اے یو ایس ) پاکستان کے صوبے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے صدر بازار میں واقع رابی سینٹر کے باہر توہین مذہب کے الزام پر مشتعل ہجوم جمع ہونا شروع ہوا، تو قریب واقع ہوٹل کے مالک غازی احمد کے ذہن میں سیالکوٹ میں ہونے والے لرزہ خیز واقعے کی تصویر گھوم گئی۔غازی احمد نے اسی لیے پولیس کو اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ اس عمارت کی جانب ہجوم کر بڑھنے سے روکنے کی کوشش شروع کر دی، جہاں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی مبینہ توہین کا ملزم موجود تھا۔
حیدر آباد میں اتوار کو پیش آنے والا یہ واقعہ ہے، جب رابی سینٹر پر سینکڑوں افراد جمع ہو گئے تھے۔ یہ مشتعل ہجوم اس شخص کو عمارت سے نکالنا چاہتا تھا جس پرتوہین مذہب کا الزام لگایا جا رہا تھا۔رابی سینٹر کے قریب واقع ہوٹل کے مالک غازی احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عمارت سے بعض مقدس اوراق سوختہ حالت میں ملنے پر لوگوں نے وہاں رہنے والے ایک خاکروب پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا اور اسے ہجوم کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔انہوں نے بتایا کہ اس عمارت میں دیگر ہندو خاندان بھی مقیم تھے۔
اس سے پہلے کہ ان الزامات پر جمع ہونے والے مشتعل ہجوم میں شامل لوگ عمارت میں داخل ہوتے اور ہنگامہ آرائی ہوتی، انہوں نے لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے سے روکا اور دیگر ساتھیوں کے ذریعے پولیس کو اطلاع دی۔ اس دوران مشتعل ہجوم عمارت کے بالائی حصوں میں جانے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا۔ اس کوشش میں کئی دروازے اور کھڑکیاں توڑ دی گئیں۔غازی احمد کا کہنا تھا کہ ان کے ذہن میں گزشتہ سال پیش آنے والا سیالکوٹ کا واقعہ گھوم رہا تھا، جب ایک سری لنکن شہری کو توہین ِ مذہب کے الزام پر ہجوم نے قتل کرکے اس کی لاش تک جلا دی گئی تھی۔گزشتہ برس ہونے والے اس واقعے کے ملزمان میں سے چھ افراد کو سزائے موت اور 72 کو قید بامشقت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔