کابل: افغانستان کے دا رالخلافہ کابل میں واقع400سال پرانے سکھ گوردوارے پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی دولت اسلامیہ فی العراق و الشام خراسان (آئی ایس ۔خراسان) کا سرغنہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے وابستہ اور اقوام متحدہ سے دہشت گرد تنظیم قرار دی جانے والی تنظیم لشکر طیبہ چھوڑ کر آئی ایس خراسان میں شامل ہوا تھا۔43سالہ مولوی اسلام فاروقی ایک پشتون ہے اور 2004میں اس نے آئی ایس خراساں میں شمولیت اختیار کی تھی اور گذشتہ سال اس نے اس دہشت پسند گروپ کی سرداری حاصل کر لی تھی۔

آئی ایس خراسان مختلف اہداف اور اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے قائم کئی چھوٹے بڑے جہادی گروپوں اور اسلامی دہشت پسند تنظیموں کا گروپ ہے۔ گروپ کے طالبان اور پاکستان کے ساتھ تعلقات اس کی ابھرتی شناخت کے اہم عنصر ہیں۔ہندوستان نے گوروارہ حملہ کی شدت سے مذمت کرتے ہوئے اسے ایسا بزدلانہ حملہ قرار دیا جس سے حملہ کرنے والوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کی ذہنی پستی و دیوالیہ پن اور شر پسندی ظاہر ہوتی ہے۔ہندوستانی سیکورٹی ایجنسیاں کئی مہینوں سے کہہ رہی ہیں کہ آئی ایس خراسان اب عملاً لشکر طیبہ کی محاذی تنظیم ہے۔

اگرچہ ہندوستان نے اپنے بیان میں اس بات کا اشارہ دیا ہے لیکن پھر بھی یہ معمہ ہے اور کچھ سیکورٹی اہلکار پریشان ہو رہے ہیں کہ آخر ایک ایسے وقت میں لشکر طیبہ سکھوں کو کیوں نشانہ بنائے گا جب پاکستان ہندوستان کے سکھ اقلیتی فرقہ کو لبھانے اور اس کا دل جیتنے کے لیے خاص طور پر کرتار پور راہداری سمت متعدد اقدامات کرنے میں مصروف ہے۔

داعش(آئی ایس)، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں پر نظر رکھنے والی اقوام متحدہ کی کمیٹی کی جولائی 2019میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو دی گئی رپورٹ کے مطابق مولوی فاروقی نے اپریل2019میں آئی ایس خراسان کی کمان سنبھالی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فاروقی جو پہلے پاکستان افغانستان سرحد ی خیبرخطہ میں داعش خراسان کا انچارج تھا اپریل 2019میں ترقی پا کر مولوی ضیاءالحق کی جگہ داعش خراساں کا سرغنہ بنا دیا گیا تھا۔ضیاءالحق کو 2018کے دوسرے نصف میں افغانستان کے ننگر ہار صوبہ میں اس کی ناقص کارکردگی کے باعث داعش خراسان کو پہنچنے والے نقصان کی روشنی میں عہدے سے معزول کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تشکیل کر دہ داعش اور القاعدہ پابندیاں کمیٹی پابندیوں کے نفاذ پر نظر رھنے والی تجزیاتی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئی قیادت کی نامزدگی داعش کے مرکزی وفد نے داعش خراسان اور دولت اسلامیہ فی العراق و الشام کے درمیان راست تعلق کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی تھی۔آئی ایس اور افغانستان پر متعدد مضامین لکھنے والے معروف ادیب و مصنف انٹونیو گستوزی نے اپنی تصنیف خراسان میں دولت اسلامیہ -افغانستان،پاکستان اور نیا وسطی ایشیائی جہاد میں آئی ایس خراسان میں فاروقی کے ابھرنے کی مکمل تفصیل بیان کی ہے۔

گستوزی کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں جو کہا گیا ہے اس سے ایک مسال قبل ہی مئی 2018میں آئی ایس خراسان کی فوجی شوریٰ نے فاروقی کو خراسان کا گورنر چن لیا تھا۔دو ماہ بعد جولائی 2018میں آئی ایس خراسان نے جلال آباد میں ہندوؤں اور سکھوں کے ایک قافلہ حملہ کر دیا جس میں 19افراد شہید ہوئے جن میں13سکھ تھے۔گستوزی مزید رقمطراز ہیں کہ پاکستان کا ایک آفریدی پشتون نامی شخص 2007تا2014افغانستان میں مقیم رہا جہاں اسے شام میں آئی ایس کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے لشکر طیبہ کے 167دہشت گردوں کے دستے کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔

اس دستہ میں شامل کئی دیگر کی مانند ،جس میں لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان جیسے دیگر گروپوں کے انتہاپسندبھی شامل تھے، فاروقی نے بھی 2016میںپاکستان واپسی سے پہلے آئی ایس میں اسی
طرح شمولیت اختیار کر لی تھی جیسی اس گروپ میں لشکر طیبہ کے100دیگر انتہاپسند شامل ہوئے تھے۔

گستوزی نے آئی ایس خراسان کے ذریعہ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید لکھا کہ فاروقی کو لیڈر بنانے کا فیصلہ پاکستان کی آئی ایس آئی سے روبط کا نتیجہ تھا۔ اور اس کے لیے سودا ہواتھا” پاکستان میں محفوظ ٹھکانوں تک رسائی کے عوض آئی ایس آئی سے وابستہ ایک لیڈر کا تقرر اور پاکستانی اہداف کے خلاف حملوں کا خاتمہ“۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آئی ایس آئی سے گہری وابستگی ہی فاروقی کے تقرر سے آئی ایس خراسان میں کشیدگی اور د یگر گروپوں کی جانب سے مخالفت کا باعث بن گئی تھی۔آئی ایس خراسان دو اصل دہشت گرد گروپوں کے اتحاد سے، جن میں سے ایک تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کے برگشتہ عناصر کے مجموعے تحریک خلافت پاکستان کے نام سے پکارا جاتا تھا، اور دوسرا خود کو افغان طالبان مخالف کہنے والے گروپ تحریک خلافت خراسان تھا،تشکیل پایاگیاتھا۔

لشکرجھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان آئی ایس آئی ایس کی دولت کی چمک دمک سے متاثر تھے اور اس میں شمولیت کے موقع کی تلاش میں تھے۔آئی ایس خراسان میں چینی و ازبیک جہادیوں سمیت متعدد دیگر انتہاپسند گروپ پہلے سے شامل تھے۔ آئی ایس خراسازن نے پاکستان کے دہشت پسند گروپوں میں لشکر طیبہ کی وہ پذیرائی نہیں کی تھی جیسی لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان کی گئی تھی۔

آئی ایس خراسان کے لیے امریکہ اور افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کی طرح پاکستان بھی ایک دشمن تھا ۔اآئی ایس خراساان کے مطابق افغان طالبان خالص جہاد نہیں کر رہے تھے۔لشکر طیبہ کو پاکستانی حکومت کے نمائندے کے طور پر دیکھا جاتا تھااور لشکر طیب ہ سے جو انتہاپسند آئی ایس کراسان میں شامل ہوئے تھے انہیں بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *