اسلام آباد:(اے یو ایس ) اسلام آباد کی ایک ڈسٹرکٹ و سیشن عدالت نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے مقدمہ کا فیصلہ محفوظ رکھنے کے ایک رو بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کی درخواست ضمانت خارج کردی۔ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں گذشتہ ہفتہ ضمانت کے لیے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کے دوران شہباز گل کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مو¿کل بیان پر معافی مانگنے کے لیے تیار ہیں۔شہباز گل کے وکیل برہان معظم نے کہا کہ ’شہباز گل نے بغاوت کے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں، ٹرانسکرپٹ کے مختلف جگہوں سے پوائنٹ اٹھا کر مقدمہ درج کیا گیا جس سے غلط فہمی ہو گئی اور شہباز اس غلط فہمی کو دور کرنے اور معافی تک مانگنے تیار ہیں لیکن یہ حق کس طرح ملا مختلف پوائنٹ اٹھا کر بغاوت کا الزام لگا دیا گیا۔
دوران سماعت انسپکٹر ارشد ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوئے۔جج نے استفسار کیا کہ ملزم کی جانب سے کون پیش ہوا ہے اور مدعی کی جانب سے کون ہے جس پر پولیس نے جواب دیا کہ ملزم شہباز گل کے وکیل برہان معظم موجود ہیں جبکہ پراسیکیوٹر آرہے ہیں۔وکیل برہان معظم نے استدعا کی کیا ہم ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں ہمارے خلاف کیا شہادت ہے جس پر عدالت نے پولیس کو ملزم کے خلاف ریکارڈ وکیل کو دکھانے کا حکم دیا۔پولیس نے استدعا کی آپ وکلا کو ہدایت دیں ایک یا دو وکلا ریکارڈ دیکھ لیں اس کی تصویریں نہ اٹھائیں۔پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے کہا کہ ہم ضمنی نہیں دکھا سکتے باقی ریکارڈ دکھا دیتے ہیں جس پر جج نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ ضمنی نہ دکھائیں ان کو باقی ریکارڈ دکھا دیں۔شہباز گل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے 161 کا بیان نہیں دکھایا، 12 گواہان لکھے ہوئے ہیں، آپ سے استدعا ہے کہ 161 کے بیان دکھانے کا حکم جاری کریں جس پر جج نے کہا کہ تفتیشی افسر کدھر ہے، اس کو بلائیں، آپ وکلا کو 161 کا بیان دکھائیں کس نے کیا بیان دیا ہے۔
ملزم شہباز گل کا بیان نہ دکھانے پر وکلا نے اعتراض کیا ۔ وکلا نے کہا کہ پولیس ملزم کا بیان نہیں دکھا رہی باقی سارے بیانات دکھا دیے ہیں جس پر عدالت نے پولیس کو ملزم کا پہلا بیان دکھانے کا حکم دیا۔یاد رہے کہ شہباز گل نے گذشتہ ہفتے ضمانت کے لیے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں شہباز گل کی درخواست ضمانت پر ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے سماعت کی۔ واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کو نجی نیوز چینل ‘اے آر وائی’ پر متنازع بیان دینے کے بعد اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں نو اگست کو حراست میں لیا تھا۔