بیجنگ: کورونا وائرس سے بری طرح متاثر چین میں بے روزگاری میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس وقت چین میں 16 سے 24 سال کی عمر کے تقریبا 20 ملین افراد شہروں اور قصبوں میں بے روزگار ہیں۔ دیہات میں بے روزگاری کو اس اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق شہری نوجوانوں کی آبادی 107 ملین ہے جس کی بنیاد پر سی این این نے یہ حساب لگایا ہے۔دی ہانگ کانگ پوسٹ کے مطابق چین میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح اس سال ایک نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یہ مارچ میں 15.3 فیصد سے بڑھ کر اپریل میں ریکارڈ 18.2 فیصد تک اور اگلے چند مہینوں تک مسلسل بڑھتے ہوئے جولائی میں19.9 تک پہنچ گئی ۔ قومی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگست میں یہ شرح قدرے گر کر 18.7 فیصد رہ گئی، لیکن یہ اب بھی بلند ترین سطح پر بنی ہوئی ہے۔ ہر پانچواں چینی بے روزگار ہو گیا ہے۔
ملک کو معاشی سست روی کا سامنا ہے کیونکہ چین میں کام کرنے والی بڑی کمپنیاں اپنے ملازمین فارغ کر رہی ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی اسمارٹ فون بنانے والی کمپنیوں میں سے ایک ژیاو¿می بھی اپنے ملازمین کی چھنٹنی کر رہی ہے۔ حال ہی میں ژیاو¿می کے ترجمان نے بتایا کہ ژیاو¿می نے کمپنی کو ہموار کیا ہے اور ملازمین کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے کمپنی کی 10 فیصد سے بھی کم افرادی قوت متاثر ہوئی ہے۔ دی ہانگ کانگ پوسٹ کے مطابق چین کے سرکاری میڈیا آو¿ٹ لیٹس نے اطلاع دی ہے کہ ژیاو¿می اپنے اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ بزنس یونٹ سمیت کئی محکموں میں ہزاروں ملازمتوں میں کٹوتی کرے گا۔دستاویزات کے مطابق، کمپنی نے 2022 کے پہلے 9 مہینوں میں تقریبا 1900 ملازمین کو فارغ کیا ہے۔ ستمبر کے آخر تک، کمپنی میں تقریباً 35,000 کل وقتی ملازمین تھے، جن میں سے زیادہ تر چین میں مقیم تھے۔ چین کی زیرو کووڈ پالیسی کی وجہ سے کمپنی کی آمدنی میں 10 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ صورتحال اگلے سال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ وزارت تعلیم نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ 1.16 کروڑ کالج گریجویٹس جاب مارکیٹ میں داخل ہوں گے۔