اسلام آباد:(اے یو ایس )وزیر اعظم عمران خان کی قیادت ولی پاکستان تحریک انصاف حکومت کے خلاف حزب اختلاف کے اتحاد کی جانب سے تحریک عدم اعتماد داخل کیے جانے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس سابق صدر مملکت رفیق تارڑ اور سینٹر رحمٰن ملک کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد دوشنبہ تک کے لیے موخر کر دیا گیا۔اسمبلی اجلاس دو شنبہ تک ملتوی کرنے سے قبل پار مسجد کے خود کش دھماکے کے ہلاک شدگان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ دریں اثنا پاکستان کی سپریم کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ اگر کوئی رکنِ اسمبلی تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر ووٹ ڈالنا چاہتا ہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا اور اس کے ووٹ کو شمار نہ کیا جانا بھی توہین ہے۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس اور تحریک عدم اعتماد کے دن تصادم روکنے کے بارے میں سپریم کورٹ بار کونسل کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ‘آئین کا آرٹیکل 63 پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے رکن کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار بتاتا ہے اور جب کوئی ووٹ دے گا تو ہی اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔‘چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے میں کسی رکن کی نااہلی کا پورا نظام موجود ہے اور عدالت کے سامنے جو سوال ہے وہ یہ ہے کہ ’ایسے رکن کی نااہلی کی مدت کیا ہو گی؟’ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 کے مطابق اراکین ناراض ہوں تب بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہیں۔انھوں نے کہا کہ ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمان میں حل ہونے چاہییں اور عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں جبکہ تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں۔
سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے اور بینچ میں چیف جسٹس پاکستان کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’جب آئین میں یہ واضح طور یہ لکھا ہے کہ فلور کراسنگ کے نتائج کیا ہوں گے تو آپ ہمارے پاس کیا لینے آئے ہیں۔ کیا آپ چاتے ہیں کہ نااہلی تاحیات ہو؟اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’خواہش یہی ہے تاکہ ملک میں جمہوریت مضبوط ہو اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کی رائے اہمیت کی حامل ہو گی‘۔بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’کیا آپ فلور کراسنگ پر پابندی لگا کر پارٹی سربراہ کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں تو اٹارنی
جنرل کا کہنا تھا کہ ’بادشاہ نہیں بنانا چاہتے تو لوٹے بھی نہیں بنانا چاہتے۔‘سماعت کے آغاز سے قبل پاکستان میں حزبِ مخالف کی جماعتوں مسلم لیگ ن، پاکستانی پیپلز پارٹی، اور جمعیت علمائے اسلام نے عدالت عظمیٰ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے دائر صدارتی ریفرنس پر اپنے جوابات جمع کروا دیے جن میں یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکا بھی نہیں جا سکتا۔پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن نے صدارتی ریفرنس سے متعلق عدالت اعظمیٰ میں جمع کروائے گئے جواب میں اسے عدالت کے قیمتی وقت کا ضیاع قرار دیا ہے۔
تصویر سوشل میڈیا 