کراچی:(اے یو ایس ) وفاقی حکومت نے نومبر میں کراچی کے میمن گوٹھ میں تشدد کے بعد قتل ہونے والے ناظم جوکھیو کے کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر بریفنگ دیتے ہوئے اس جے آئی ٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی میں ایف آئی اے، سول اور عسکری فورسز کے نمائندے شامل ہوں گے۔انھوں نے سندھ حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’ناظم جوکھیو کے قاتلوں کو بچانے کے لیے کیا کیا نہیں کیا گیا، کرمنل تحقیقات کو مکمل طور پر کمپرو مائز کیا گیا اور یہ صورتحال ناقابل قبول ہے اور وفاقی حکومت کو اس کیس سے متعلق تحقیقات پر تحفظات ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے اس کیس کے حوالے سے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنانے کی منظوری دی ہے۔
یاد رہے کہ متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ ان پر کیس واپس لینے کے لیے ملزمان کی جانب سے کافی دباو¿ ہے۔رواں برس نومبر میں سندھ کے رہائشی ناظم جوکھیو نے ملیر میمن گوٹھ میں غیر ملکیوں کو شکار سے روکنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تھی، جس کے بعد ا±ن کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔ناظم جوکھیو کے لواحقین نے اس مبینہ قتل کے الزام میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس گہرام، رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم سمیت 22 ملزمان کو نامزد کیا تھا، جن میں سے بیشتر افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جبکہ چند ملزمان ضمانت پر رہا ہیں۔اس سے قبل ناظم جوکھیو قتل کیس کے مدعی نے درخواست کی تھی کہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی جائیں۔ مدعی کی اس درخواست پر یہ دفعات مقدمے میں شامل کر لی گئی تھیں۔اس کیس کے مدعی افضل جوکھیو کے وکلا نے مو¿قف اختیار کیا تھا کہ انھیں پولیس کی موجودہ تفتیشی ٹیم پر اعتماد نہیں۔تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ناظم جوکھیو کا جلا ہوا موبائل فون اور کپڑے برآمد ہو چکے ہیں جن کو فارنزک لیبارٹری بھیجا گیا ہے، جس پر مدعی کے وکلا نے مو¿قف اختیار کیا کہ کپڑوں اور موبائل کی تصدیق ان سے نہیں کروائی گئی۔اس سے قبل ناظم جوکھیو کے ورثا اور وکلا نے ملیر پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مقدمے کی آزادانہ تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کی درخواست کی تھی۔محکمہ داخلہ نے ان کی یہ درخواست منظوری کے لیے وزیر اعلیٰ کو بھیجی تھی۔
ناظم جوکھیو کے بڑے بھائی اور مقدمے کے مدعی افضل جوکھیو نے گذشتہ ماہ محکمہ داخلہ کے سیکریٹری سے ملاقات کی اور انھیں جے آئی ٹی تشکیل دینے کی درخواست دی، جس میں ایک ڈی ایس پی، ایک انسپکٹر، رینجرز، آئی ایس آئی، ایم آئی کے میجر رینک کے افسران کے ساتھ انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے بھی افسران شامل کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔افضل جوکھیو کے مطابق تفتیشی پولیس کے جو نتائج آ رہے ہیں وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں، پولیس نے جو کپڑے اور موبائل فون برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے وہ اس سے بھی اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ایک تو وہ وہاں موجود نہیں تھے اور دوسرا کپڑے اور موبائل بھی جلے ہوئے ہیں۔افضل جوکھیو کے وکیل مظفر جونیجو نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ناظم کے قتل کی جو ایف آئی آر درج کی گئی وہ مدعی کے پہنچنے سے قبل اس کے بیان کو بنیاد بنا کر دائر کی گئی تھی۔