جنوب ایشیا میںپاکستان ایک طویل عرصے تک اس گمان میں کہ یہ اس کی بقا کے لیے لازمی ہے چین کی نہایت پسندیدہ کٹھ پتلی اور طوطے کا کردار ادا کرتا رہا۔لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ نیپال ہندوستان کے جوہری پڑوسی سے یہ عہدہ چھین کر خود اس پر فائز ہونے کے لیے بہت جلدی میں ہے۔ایک لازمی صورت حال جو چینی عفریت کو خطے میں اپنی خارجہ پالیسی کے ا غراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے دیگر ممالک کو پالتو جانوروں اور مکلفوں کی حیثیت سے گود لینے پر فوری طور پر آمادہ ہونے پر مجبور کرتی ہے وہ ہندوستان کو مستقل اشتعال دلاتے رہنے کی ہے ۔ پاکستان دہشت گردی کی برآمد اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی شکل میں اپنے قول و عمل سے ایسا کررہا ہے ۔پاکستان چینیوں کا اس قدر اندھا عقیدتمند اور وفادار کہ اگر اسے چینیوں کا راٹ وائیلر (Rottweiller )(جرمن نسل کا مویشیوں کی حفاظت پر مامور کتا ) کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ لیکن عیار و مکار چینی جانتے ہیں کہ واقعتاً پاکستانی زور دار آواز میں بھونک تو سکتے ہیں لیکن وہ ہندوستان کو کاٹنے کی ہمت وحوصلہ نہیں رکھتے۔ابھی تک نیپال نے خود کو اس اقدام سے روک رکھا تھا کہ وہ ہندوستان پر یہ الزامات لگا کر اسے زچ کرے کہ وہ ایک چھوٹی سی ہمالیائی ریاست کی خود مختاری اور یکجہتی کو چیلنج کرنے کے لیے جارحانہ اقداما ت کر رہا ہے ۔
نیپال اگرچہ ہندوستان کو دہشت گردی برآمد نہیں کرتا لیکن اس نے پاکستان کی بدنام زمانہ آئی ایس آئی کو اپنی سرزمین سے ہند مخالف کارروائیوں بشمول جعلی ہندوستانی کرنسی پھیلانے سے بھی نہیں روکا ۔چینی اشارے پر ناچنے کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ نیپال نے ہندوستان ، چین اور نیپال کے تراہے پر اپنے علاقے کے ایک چھوٹے لیکن اہم حصے پر قبضہ کرنے کا عملی طور پر الزام لگا کر ایک سفارتی طوفان کھڑا کر دیا ہے۔اس نے فوری طور پر ایک نقشہ جاری کر دیا جس میں اس نے لیپو لیکھ درے کو اپنی ملکیت ظاہر کیا ہے اور ہندوستان کو اس کے پار ایک ایسی سڑک بنانے کے لئے مذمت کی ہے جو یاتریوں کو کیلاش مانسروور پہنچنے اور تجارت کے مقصد سے تعمیر کی جا رہی ہے۔اپنے دعوے کی حمایت میں نیپال نے دو صدی پہلے یعنی 1816 میں کیے گئے سگواو¿لی معاہدے کا حوالہ دیا جس میں اس درے کو نیپالی حصہظاہر کیا گیا ہے۔ زمانہ قدیم کی جانب رخ کرنا بڑا دلچسپ ہے۔ چین بھی صدیوں پرانے چینی نقشہ کی بنیاد پر سمندروں اور متعدد ہمسایہ ممالک کے علاقوں پر بڑھ چڑھ کر دعوے کرتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے بعد سے اب تک جنگ اور سفارتکاری دونوں سے بہت تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ نیپال محض اپنے چینی بھگوان کی قائم کردہ مثال کی تقلید کر رہا ہے۔
لیپو لیکھ درہ ان سرحدی دروں میں سے ایک ہے جو تبت پر چین کے غیر قانونی اور جبراً تسلط سے قبل 1954میں ہندوستان اور تبت کے درمیان معاہدے کے تحت تجارت کے لیے کھولا گیا تھا ۔لیکن دو طرفہ تجارت جاری رہی اور نیپال نے بھی کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ 1962 میں ہندوستان پر چینی حملے کے بعد یہ درہ بند کردیا گیا۔ 1981 میں دوطرفہ تعلقات میں سدھار آجانے کے بعد لیپو لیکھ درہ دوبارہ کھول دیا گیا لیکن اس بار کیلاش مانسروور کی یاترا کے لیے کھولا گیا ۔دس سال بعد 1991 میں ایک دو طرفہ معاہدے نے ایک سڑک کی درخواست کے ساتھ لپو لیکھ درے کے پار تجارت دوبارہ شروع کرنے کا راستہ ہموار کر دیا۔ اس کے بعد ہندوستان نے گاڑیوں کی آمد و رفت کے لئے باقاعدہ سڑک بنانے کا فیصلہ کیا جو چین کو ہضم نہیں ہوا ہوگا لیکن سب سے زیادہ چیخ پکار نیپال کرر ہا ہے ۔چینیوں نے ہندوستان کے ساتھ جو تجارتی معاہدہ کیا اس میں واضح طور پر یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ لپو لیکھ درہ ہندوستان کا علاقہ تھا یا ، کم از کم حقیقی کنٹرول لائن کا حصہ تھا ، ورنہ انہوں نے نیپال کو شامل کر کے سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے ہوتے۔ نیپال نے مبینہ طور پر اسے شامل کیے بغیر ہندوستان کے ساتھ معاہدہ پر دستخط کرنے پر چین سے احتجاج کیا۔ چونکہ معاہدے کو منسوخ کیا گیا اور نہ ہی اس میں ردو بدل کی گئی اس لیے نیپال اس میں سنجیدہ نظر نہیں آتا۔
2015 میں ہندوستان اور چین نے باہمی تجارت کو فروغ دینے پر اتفاق کیا تھا۔چین نے مبینہ طور پر نیپال کی درخواست (یا احتجاج) پر ہندوستان کے ساتھ معاہدے پر نظر ثانی کرنے پر اتفاق کر لیا لیکن ہندوستان کے ساتھ پہلے ہی دستخط شدہ معاہدے کو کالعدم قرار دینے کے لئے کوئی پیشرفت نہیں کی۔ہندوستان اور نیپال کے مابین سرحدی تنازعہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن حالیہ برسوں میں یہ ایک سنگین معاملہ نظر آرہا ہے کیوں کہ بادشاہت کے خاتمے کے بعد نیپال کی سیاست نے چین نواز اور ہندوستان مخالف فیصلہ کن رخ اختیار کر لیا۔ اس سے قبل ہند۔ نیپال تعلقات زیادہ نقصان پہنچائے بغیر نشیب و فراز کا شکار رہا کرتے تھے۔ہندوستان کو نیپال پر یہ شک کرنے کا ہر سبب موجود ہے کہ نیپا ل کی حالیہ اشتعال انگیزی چین کے اشاروں پر ہی کی گئیہے۔
نیپالی سیاست کی داخلی حرکیات بھی ہند مخالف جذبات کو بھڑکانے میں معاونت کر رہی ہیں۔نیپال میں کمیونسٹ لیڈران جن کی صفوں میں گہری دراڑیں ہیں کسی زمانے میں ہندوستان کی طرف جھکاو¿ رکھتے تھے وہ اب جذبات بھڑکانے کے عمل میں خوشی خوشی چینی مفادات کی خاطر اس کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہند کے تئیں ان کی جارحیت بلا خیز سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔تاہم اس سے نیپال میں کمیونسٹ سیاسی جماعت میں داخلی لڑائی نہیں رک سکتی۔ وہ اپنے اختلافات کو اسی طرح ختم کرانے کے لیے چین کے منتظر ہیں جس طرح حال ہی میں جب ایک سابق وزیر اعظم نے موجودہ وزیر اعظم کے پی شرما اولی کے خلاف اندرونی بغاوت کی قیادت کی تو چین نے ہی اس معاملہ کو سلجھایا ۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ چینی سفیر متعین نیپال نے نیپالی کمیونسٹ پارٹی میں مختلف دھڑوں کے مابین ثالثی کی اور اولی کو جو شاید ہندوستانکے بدترین مخالف سمجھے جاتے ہیں،عہدے سے معزول کیے جانے سے بچا لیا ۔
جب اس نے لیپو لیک پاس تنازعہ کے پھوٹ پھوٹ کے بعد کہا کہ چینی یا اطالوی وائرس کے مقابلے میں ’ہندوستانی وائرس‘ زیادہ خطرناک ہے وہ اپنے ملک میں کورونویرس کی نوعیت کی وضاحت کرنے کے بجائے حقیقت میں ہندوستان کی مذمت کررہا ہے۔اولی نیپال کے سابقہ وزرائے اعظم کے برعکس، جو ہندوستان پرتنقید کرتے تھے ، اس قدر ہند مخالف ہیں کہ انھوں نے سفارت کاری اور مذاکرات کے توسط سے ہندوستان کے ساتھ نام نہاد سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کے مواقع پس پشت ڈال دیےٓ±ؑ۔ نیپال کو چین کی پشت پناہی حاصل ہونے کی یقین دہانی کے باوجود کورونا وبائی مرض کی وجہ سے مچی کھلبلی کے باعث تنازعہ مزید سنگین تصادم کی شکل اختیار کرنے سے رک سکتا ہے۔ نیپال کے اپنے علاقائی دعو ے کی ”مصنوعی وسعت “کو خارج کرتے ہوئے ہندوستان نے کوروناوائرس وبائی امراض کے پیش نظر جلد مذاکرات کرنے کے لیے کسی بھی منصوبے کا اشارہ نہیں دیا ہے۔لیکن کیا اس مرحلے پر نیپال سے بات کرکے کوئی فائدہ ہوگا؟ یہ حاالات کے عین مطابق ایسا سوال ہے جس کا نیپال کے پاس کوئی تیار جواب نہیں ہے کیونکہ نیپالی موقف ان کی داخلی سیاست میں پھوٹ کی عکاسی کرے گا۔ایک نظریہ یہ ہے کہ وزیر اعظم اولی کیتازہ ترین ہند مخالف بیان بازی پوری طرح سے خانگی تقاضوں و مجبوریوں کا نتیجہ ہے جسے بقا کی سیاست کہا جاتا ہے۔نیپال کی اس اگر مگر سے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نیپال پرکسی اور کی یماءپر ہند کو مشتعل کرنے کے نئے ذریعہ کے طور پر چین کا ایک اور نوآبادیاتی خادمبننے کا خطرہ منڈلا رہاہے۔