اسلام آباد (اے یو ایس ) پاکستان کی سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے مقدمہ قتل کے ملزم برطانیہ نژاد القاعدہ انتہاپسند احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت کو سات سال کی قید میں تبدیل کرنے کے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف صوبائی حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ملزم کی رہائی کا حکم جاری ۔ کیونکہ وہ پہلے ہی سات سال کی قید کاٹ چکے ہیں۔
سندھ حکومت نے اپریل 2020 میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے مقدمے میں سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس میں مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت ختم کر کے انھیں اغوا کے جرم میں سات برس قید کی سزا کا حکم دیا گیا تھا جبکہ تین ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔احمد عمر شیخ اس مقدمے کے دوران سات برس سے زیادہ عرصہ قید میں گزار چکے ہیں۔سندھ کی صوبائی حکومت نے اپنی اپیل میں سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ احمد عمر شیخ کی سزائے موت جبکہ اس مقدمے کے دیگر ملزمان فہد سلیم، سلمان ثاقب اور محمد عادل کی عمر قید کی سزائیں بحال کی جائیں۔
سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت نے ان تمام ملزمان کو نظربند کر دیا تھا تاہم دسمبر 2020 میں سندھ ہائیکورٹ نے ہی احمد عمر شیخ سمیت چار ملزمان کی نظر بندی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے کر ملزمان کو فوری طور پر جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا تھا تاہم عدالت نے تمام ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کو بھی کہا تھا۔
پاکستان میں اس مقدمے میں سنہ 2002 میں عمر شیخ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی جس پر اپیل کا فیصلہ 18 برس بعد دو اپریل 2020 کو ہوا اور عدالت نے ان کی سزائے موت ختم کرتے ہوئے اسے اغوا کے جرم میں سات برس قید کی سزا سے بدل دیا تھا۔واضح رہے کہ امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کو سنہ 2002 میں کراچی میں اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس مقدمے میں مبینہ طور پر کالعدم تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عمر سعید شیخ سمیت چار افراد کو گرفتار کیا تھا۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر عمر سعید شیخ کو سزائے موت جبکہ باقی تین مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔سندھ ہائی کورٹ نے رواں سال اپریل میں اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے مجرمان کو دی گئی سزاو¿ں کے خلاف اپیل میں احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت ختم کر کے انھیں اغوا کے جرم میں سات برس قید کی سزا کا حکم دیا گیا تھا جبکہ دیگر تین ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کرنے کا حکم دیا تھا۔